اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۱۱

اصل میں لفظ ماعون استعمال ہوا ہے۔ حضرت علیؓ، ابن عمرؓ، سعید بن جُبَیر، قَتَادہ، حسن بصری، محمد بن حَنَفِیّہ، ضَحّاک ، ابن زید، عِکْرِمَہ، مجاہد، عطاء اور زُہری رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے  مراد زکوٰۃ ہے۔ ابن عباس ؓ، ابن مسعودؓ، ابراہیم ؓ نخعی، ابو مالکؒ اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد  عام ضرورت کی اشیاء مثلاً ہَنڈیا، ڈول، کلہاڑی، ترازو، نمک، پانی، آگ، چقماق(جس کی  جانشین اب دیا سلائی ہے) وغیرہ ہیں جو عموماً لوگ ایک دوسرے سے عاریۃً مانگتے رہتے ہیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ حضرت علی ؓ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں بھی۔ عِکْرِمَہ سے  ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلیٰ مرتبہ زکوٰۃ ہے اور ادنیٰ ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی، ڈول یا سوئی عاریۃً دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے (اور بعض روایات میں ہے کہ حضورؐ کے عہد مبارکہ میں یہ  کہا کرتے تھے) کہ ماعون سے مراد ہنڈیا، کلہاڑی، ڈول، ترازو، اور ایسی ہی دوسری چیزیں مستعار دینا ہے (ابن جریر، ابن ابی شَیبہ، ابو داؤد، نَسائی، بَزّار، ابن المنذر، ابن ابی حاتم،  طَبَرانی فی الاوسط، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن، سعد بن عِیاض ناموں کی تصریح کے بغیر قریب قریب یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے متعدد صحابہ سے یہ بات سُنی تھی (ابن جریر، ابن ابی شَیبَہ) دَیلَمی، ابن عَساکِر اور ابو نعیم نے حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالبًا یہ دوسرے لوگوں کے علم میں نہ آئی ہو گی، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا۔

اصل میں بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہین جس میں لوگوں کے لیے کوئی  منفعت یا فائدہ ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے زکوٰۃ بھی ماعون ہے ، کیونکہ وہ بہت سے مال میں سے تھوڑا  سا مال ہے جو غریبوں کی مدد کے لیے دینا ہوتا ہے، اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اِطلاق اُن تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوت ہے کہ جو عادۃً ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں ۔ اُن کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے ۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے  سے بخل برتنا اخلاقًا ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے۔ عمومًا ایسی چیزیں بجائے کود باقی رہتی ہیں اور  ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں جوں کا توں واپس دے دیتا ہے۔ اِسی ماعون کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں مہمان آجائیں اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے۔ یا کوئی ا پنے ہمسائے کے تنور میں اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے۔ یا کوئی کچھ دنوں کے لیے بار جا رہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں رکھوانا چاہے۔ پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے  کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔