اس رکوع کو چھاپیں

سورة قریش حاشیہ نمبر۵

یعنی جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں ہے اُس سے یہ محفوظ ہیں۔ عرب کا حال اُس دور میں یہ تھا کہ پورے ملک میں کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں کو چین سے سوسکتے ہوں، کیونکہ ہر وقت ان کی یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اُس پر چھاپا مار دے۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کر سکے، کیونکہ اکّا دُکّا آدمی کا زندہ بچ  کر واپس آجانا، یا گرفتار ہوکر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امرِ محال تھا۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے، کیونکہ راستے  میں جگہ جگہ اُس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا، اور راستے بھر کے با اثر قبائلی سرداروں کو رشوتیں دے کر تجارتی قافلے بخیریت گزر سکتے تھے۔ لیکن قریش مکّہ میں بالکل محفوظ تھے، انہیں کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ اُن کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصّے میں آتے جاتے تھے، کوئی یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ قافلہ حَرَم کے خادموں کا ہے ، انہیں چھیڑنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ  اکیلا قریشی بھی اگر کہیں سے گزر رہا ہو اور کوئی ا س سے تعرُّض کرے تو صرف لفظ”حَرَمی  یا  اَنَا مِنْ حَرَمِ اللہِ کہہ دینا کافی ہو جاتا تھا، یہ سُنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رُک جاتے تھے۔