اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم |
سورة الفیل |
رکوع | ||||||||||||||||||||||||||||||
نام : پہلی ہی آیت کے لفظ اَصْحٰبِ الْفِیْل سے ماخوذ ہے۔ زمانۂ نزول : یہ سورۃ بالاتفاق مکّی ہے۔ اور اِس کے تاریخی پَسْ منظر کو اگر نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا نزول مکّہ ٔ معظمہ کے بھی ابتدائی دور میں ہوا ہوگا۔ تاریخی پسِ منظر : اِس سے پہلے تفسیر سُورۂ بروج حاشیہ ۴ میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ ، نَجْر ان میں یمن کے یہودی فرمانروا ذُونُو اس نے پیروانِ مسیح علیہ السلام پر جو ظلم کیا تھا اُس کا بدلہ لینے کے لیے حَبَش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کر کے حِمیْرَی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور سن ۵۲۵ء میں اِس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ یہ ساری کارروائی دراصل قسطنطنیہ کی رومی سلطنت اور حَبَش کی حکومت کے باہم تعاون سے ہوئی تھی، کیونکہ حبشیوں کے پاس اُس زمانے میں کوئی قابل ذکر بحری بیڑا نہ تھا۔ بیڑا رومیوں نے فراہم کیا اور حَبَش نے اپنی ۷۰ ہزار فوج اُسی کے ذریعہ سے یمن کے ساحل پر اتاری ۔ آگے کے معاملات سمجھنے کے لیے یہ بات ابتداء ہی میں جان لینی چاہیے کہ یہ سب کچھ محض مذہبی جذبے سے نہیں ہوا تھا بلکہ اِس کے پیچھے معاشی و سیاسی اغراض بھی کام کر رہی تھیں، بلکہ غالباً وہی اِس کی اصل محرک تھیں اور عیسائی مظلومین کے خون کا انتقام ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ رومی سلطنت جب سے مصر و شام پر قابض ہوئی تھی اُسی وقت سے اُس کی یہ کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ ، ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ ممالک اور رومی مقبوضات کے درمیان جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض چلے آرہے تھے ، اُسے عربوں کے قبضے سے نکال کر وہ خود اپنے قبضے میں لے لے ، تا کہ اُس کے مَنافِع پورے کے پورے اُسے حاصل ہوں اور عرب تاجروں کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے۔ اِس مقصد کے لیے سن ۲۴ قبل ِ مسیح میں قیصر آگسٹَس نے ایک بڑی فوج رومی جنرل ایلیَس گالوس (Aelius Gallus ) کی قیادت میں عرب کے مغربی ساحل پر اتار دی تھی تاکہ وہ اُس بحری راستے پر قابض ہو جائے جو جنوبی عرب سے شام کی طرف جاتا تھا۔ (اِس شاہراہ کا نقشہ ہم نے تفہیم القرآن، جلد دوم میں صفجہ ۱۲۲ پر درج کیا ہے)۔ لیکن عرب کے شدید جغرافی حالات نے اس مہم کو ناکام کر دیا۔ اس کے بعد رومی اپنا جنگی بیڑہ بحر احمر میں لے آئے اور انہوں نے عربوں کی اُس تجارت کو ختم کر دیا جو وہ سمندر کے راستے کرتے تھے ، اور صرف بَرّی راستہ اُن کے لیے باقی رہ گیا۔ اِسی بَرّی راستے کو قبضے میں لینے کے لیے اُنہوں نے حبش کی عیسائی حکومت سے گٹھ جوڑ کیا اور بحری بیڑے سے اُس کی مدد کر کے اُس کو یمن پر قابض کرادیا۔ ابرھہ نے اِس مقصد کے لیے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا تعمیر کرایا جس کا ذکر عرب مورخین نے اَلْقَلِیس یا اَلقُلَّیس کے نام سے کیا ہے (یہ یونانی لفظ Ekklesia کا معرّب ہے اور اردو کا لفظ کلیسا بھی اسی یونانی لفظ سے ماخوذ ہے)۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس کام کی تکمیل کے بعد اُس نے شاہِ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اِس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں ۔گا ۱؎ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اُس نے یمن میں علیٰ الاعلان اپنے اِس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرادی۔ اُس کو مکّہ پر حملہ کرنے اور کعبے کے منہدم کر دینے کا بہانہ مل جائے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اُس کے اِس اعلان پر غضبناک ہو کر ایک عرب نے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ فعل ایک قریشی نے کیا تھا۔ اور مُقاتِل بن سلیمان کی روایت ہے کہ قریش کے بعض نوجوانوں نے جا کر کلیسا میں آگ لگا دی تھی۔ اِن میں سے کوئی واقعہ بھی اگر پیش آیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے ، کیونکہ ابرھہ کا یہ اعلان یقیناً سخت اشتعال انگیز تھا اور قدیم جاہلیت کے دور میں اس پر کسی عرب، یا قریشی کا ، یا چند قریشی نوجوانوں کا مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کر دینا یا اس میں آگ لگا دینا کوئی ناقابل فہم بات نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابرھہ نے خود اپنے کسی آدمی سے خفیہ طور پر ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تاکہ اُسے مکّہ پر چڑھائی کرنے کا بہانا مل جائے اور اس طرح وہ قریش کو تباہ اور تمام اہلِ عرب کو مرعوب کر کے اپنے دونوں مقصد حاصل کر لے۔ بہر حال دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، جب ابرھہ کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کعبے کے معتقدین نے اس کے کلیسا کی یہ توہین کی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں اُس وقت تک چین نہ لوں گا جب تک کعبے کو ڈھا نہ دوں۔ لا ھُمّ ان العبد یمنع رحلہ فامنع حِلالکْ لا یغلبنّ صلیبھم و مِحالھم غدوًا مِحالک ان کنت تارکھم و قِبلتنا فا مر ما بدالکْ یا ربّ لا ارجولھم سوا کا یا ربّ فامنع منہم حِما کا ان عدوّ البیت من عاد اکا امنعھم ان یخربوا قراکا یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے ، اور دوسرے روز ابرھہ مکّے میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا، مگر اُس کا خاص ہاتھی محمود ، جو آگے آگے تھا، یکایک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تَبَر مارے گئے، آنکَسوں سے کَچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اسے زخمی کر دیا گیا ، مگر وہ نہ ہلا۔ اُسے جنوب، شمال، مشرق کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا، مگر مکّے کی طرف موڑا جاتا تو وہ فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ اِتنے میں پرندوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اِس لشکر پر اُن سنگریزوں کی بارش کر دی۔ جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع شروع ہو جاتا۔ محمد بن اسحاق اور عِکْرِمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلادِ عرب میں سب سے پہلے چیچک اسی سال دیکھی گئی۔ ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھُجلی لاحق ہو جاتی اور کھُجاتے ہی جِلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا۔ ابن عباس ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرھہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اُس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا۔ افراتفری میں اِن لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ نُفَیل بن حبیب خَشْعَمی کو ، جسے یہ لوگ بدرقہ بنا کر بلادِ خَشْعَم سے پکڑ لائے تھے، تلاش کر کے انہوں نے کہا کہ واپسی کا راستہ بتائے ۔ مگر اُس نے صاف انکار کر دیا اور کہا: این المفرّ و الا لٰہ الطالبْ والا شرم المغلوب لیس الغالبْ یہ واقعہ مُزْدَلفَہ اور منیٰ کے درمیان وادی مُحَصَّب کے قریب مُحَسِّر کے مقام پر پیش آیا تھا۔ صحیح مسلم اور ابو داؤد کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کا جو قصّہ امام جعفر صادق نے اپنے والد ماجد امام محمد باقر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مُزْدَلِفَہ سے منیٰ کی طرف چلے تو مُحَسِّر کی وادی میں آپ نے رفتار تیز کر دی۔ امام نَوَوی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اِسی جگہ پیش آیا تھا، اس لیے سنّت یہی ہے کہ آدمی یہاں سے جلدی گزر جائے۔ موطّا ء میں امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ مزدلفہ پورا کا پورا ٹھیرنے کا مقام ہے، مگر محسّر کی وادی میں نہ ٹھیرا جائے۔ نُفَیل بن حبیب کے جو اشعار ابن اسحاق نے نقل کیے ہیں ان میں وہ اِس واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے: رُدَینۃُ لو رأیتِ ولا تَریہ لدٰی جنب المحصَّب مارأینا حمدتُ اللہ اذا بصرت طیرًا وخفت حجارۃ تلقٰی علینا وکلّ القوم یسأل عن نُفَیل کان علیّ للحبشان دَینا ستّون الفالم یوْ بوا ارضھم ولم یعش بعد الایاب سقیمہا کانت بھا عاد و جرھم قبلہم واللہ من فوق العباد یقیمہا ابو قَیس بن اَسْلَت کہتا ہے: فلما اتاکم نصر ذی العرش ردّھم جنود الملیک بین ساف وحاصب یہی نہیں بلکہ حضرت اُمّ ھانی اور حضرت زُبَیر بن العَّوام کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قریش نے ۱۰ سال (اور بروایت ِ بعض سات سال) تک اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ امّ ھانی کی روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور طَبَرانی ، حاکم ، ابن مَرْدُوْیَہ اور بَیْہَقِی نے اپنی کتب حدیث میں نقل کی ہے ۔ حضرت زُبَیر کا بیان طَبرَانی اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ اور اِس کی تائید ِ مزید حضرت سعید بن المُسَیَّب کی اُس مُرْسَل روایت سے ہوتی ہے جو خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں درج کی ہے۔ مقصودِ کلام : جو تاریخی تفصیلات اوپر درج کی گئی ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورۂ فیل پرغور کیا جائے تو یہ بات چھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اِس سورۂ میں اِس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب الفیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کر دینے پر کیوں اکتفا کیا گیاہے۔ واقعہ کچھ بہت پرانا نہ تھا ۔ مکّے کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ عرب کے لوگ عام طور پر اس سے واقف تھے۔ تمام اہلِ عرب اِس بات کے قائل تھے کہ ابرھہ کے اِس حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی یا دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی تھی۔ اللہ ہی سے قریش کے سرداروں نے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ اور چند سال تک قریش کے لوگ اِس واقعہ سے اس قدر متأثر رہے تھے کہ اُنہوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورۂ فیل میں اِن تفصیلات کے ذکر کی حاجت نہ تھی، بلکہ صرف اس واقعے کو یاد دلانا کافی تھا ، تاکہ قریش کے لوگ خصوصًا ، اور اہلِ عرب عمومًا، اپنے دلوں میں اس بات پر غور کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کی طرف دعوت دے رہےہیں وہ آخر اِس کے سوا اور کیا ہے کہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ۔ نیز وہ یہ بھی سوچ لیں کہ اگر اِس دعوتِ حق کو دبانے کے لیے اُنہوں نے زور زبردستی سے کام لیا تو جس خدا نے اصحاب الفیل کا تہس نہس کیا تھا اسی کے غضب میں وہ گرفتار ہوں گے۔ |
|
۱؎ یمن پر سیاسی اقتدار حاصل کر نے کے بعد عیسائیوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کعبہ کے مقابلے میں ایک دوسرا کعبہ بنائیں اور عرب میں اُس کی مرکزیت قائم کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے نَجران میں بھی ایک کعبہ بنا یا تھا جس کا ذکر ہم تفسیر سورۂ بروج حاشیہ ۴ میں کر چکے ہیں واپس |
|
۲؎ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کے بعد یمن میں اُن کی طاقت بالکل ٹوٹ گئے، جگہ جگہ یمنی سردار علم بغاوت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے، پھر ایک یمنی سردار سیف بن ذِی یَزََن نے شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کر لی اور ایران کی صرف ایک ہزار فوج جو چھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی، حبشی حکومت کا خاتمہ کردینے کے لیے کافی ہو گئی۔ یہ سن ۵۷۵ عیسوی کا واقعہ ہے۔ واپس |
www.tafheemulquran.net |
جلد ششم | اگلا رکوع
| پچھلا رکوع
|
رکوعھا1 |
|
سورة الفیل مکیة
|
اٰیاتُھَا 5 |
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے تم نے دیکھا نہیں 1 کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ 2 کیا اُس نے اُن کی تدبیر 3 کو اَکارَت نہیں کر دیا؟ 4 اور اُن پر پرندوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ بھیج دیے 5 جو اُن پر پکّی ہوئی مَٹّی کے پتھر پھینک رہے تھے، 6 پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا۔ 7 ؏۱ |
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِؕ۰۰۱اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍۙ۰۰۲وَّ اَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَۙ۰۰۳تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ۪ۙ۰۰۴فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍؒ۰۰۵ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع | پچھلا رکوع |