اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة العٰدیٰت

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :   پہلے ہی لفظ اَلْعٰدِیٰت کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :   اِس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، جابر ، حسن بصری، عِکْرِمہ اور  عطاء کہتے ہیں کہ یہ مکّی ہے۔ حضرت اَنَس بن مالک اور قتادہ کہتےہیں کہ مدنی ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سورۃ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن سورۃ کا مضمون اور اندازِ بیان صاف بتا رہا ہے کہ یہ نہ صرف مکّی ہے ، بلکہ مکّہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔

موضوع اور مضمون: اِس کا مقصود لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ انسان آخرت کا منکر یا اُس سے غافل ہو کر کیسی اخلاقی پستی میں گر جاتا ہے، اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بات سے خبردار بھی کرنا ہے کہ آخرت میں صرف اُن کے ظاہری افعال ہی کی نہیں بلکہ ان کے دلوں میں چھُپے ہوئے اَسرار تک کی جانچ پڑتا ہوگی۔
          اِس مقصد کے لیے عرب میں پھیلی ہوئی اُس عام بد امنی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے سارا ملک تنگ آیا ہوا تھا۔ ہر طرف کشت و خون برپا تھا۔ لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور کوئی شخص بھی رات چین سے نہیں گزار سکتا تھا کیونکہ ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کب کوئی دشمن صبح سویرے اس کی بستی پر ٹوٹ پڑے۔ یہ ایک ایسی حالت تھی جسے عرب کے سارے ہی لوگ جانتے تھے اور اس کی قباحت کو محسوس کرتے تھے۔ اگرچہ  لُٹنے والا اس پر ماتم کرتا تھا اور لوٹنے والا اس پر خوش ہوتا تھا، لیکن جب کسی وقت لوٹنے والے کی اپنی شامت آجاتی تھی تو وہ بھی محسوس کر لیتا تھا کہ یہ کیسی بُری حالت ہے جس میں ہم لوگ مبتلا ہیں۔ اِس صورت حال  کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی اور اپس میں خدا کے حضور جواب دہی سے ناواقف ہو کر انسان اپنے ربّ کا ناشکرا ہو گیا ہے، وہ خدا کی دی ہوئی قوتوں کو ظلم و ستم اور غارت گری کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہ مال و دولت کی محبت میں اندھا ہو کر ہر طریقے سے اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، خواہ وہ کیسا ہی ناپاک اور گھِناؤنا طریقہ ہو، اور اُس کی حالت خود اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ وہ اپنے ربّ کی عطا کی ہوئی قوتوں کا غلط استعمال کر کے اس کی ناشکری کر رہا ہے۔ اُس کی یہ روش ہر گز نہ ہوتی اگر وہ اُس وقت کو جانتا ہوتا جب قبروں سے زندہ ہو کر اُٹھنا ہو گا، اور جب وہ ارادے اور وہ اغراض و مقاصد تک  دلوں سے نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے جن کی تحریک سے اُس نے دنیا میں طرح طرح کے کام کیے تھے۔ اُس وقت انسانوں کے ربّ کو خوب معلوم ہو گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور کس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔

www.tafheemulquran.net