اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة الزلزال

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :   پہلی آیت کے لفظ  زِلْزَالَھَا سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول :   اس کے مکّی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ۔ ابن مسعودؓ ، عطاء ، جابر اور مجاہد کہتے ہیں کہ یہ مکّی ہے اور ابن عباس ؓ  کا بھی ایک قول اس کی تائید میں منقول ہے۔ بخلاف اِس کے قَتَادہ اور  مُقاتِل کہتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور ابن عباس ؓ سے بھی دوسرا قول اِس کے مدنی ہونے کی تائید میں نقل ہوا ہے۔اِس کے  مدنی ہونے پر حضرت ابو سعیدؓ خُدْرِی کی اُس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ جو ابن ابی حاتم نے اُن سے نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ  فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَۃٍ شَرًا یَّرَہٗ  تو میں نے عرض کیا ، یا رسول ؐ اللہ کیا میں اپنا عمل دیکھنے والا ہوں؟ حضور ؐ نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا یہ بڑے بڑے گناہ؟ آپ ؐ نے جواب دیا ہاں۔ میں عرض کیا اور یہ چھوٹے چھوٹے گنا ہ بھی؟ حضور ؓ نے فرمایا ہاں۔ اس پر میں نے کہا پھر تو میں مارا گیا۔ حضور ؐ نے فرمایا خوش ہو جاؤ اے ابو سعید، کیونکہ ہر نیکی اپنی جیسی دس نیکیوں کے برابر ہو گی۔ اِس حدیث سے اِس سورہ کے مدنی ہونے پر استدلال کی بِنا  یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خُدریؓ  مدینے کے رہنے والے تھے اور غَزْوۂ اُحد کے بعد سنّ بلوغ کو پہنچے۔ اس لیے اگر یہ سورۃ ان کی موجودگی میں نازل ہو ئی تھی، جیسا کہ ان کے بیان سے ظاہر ہے، تو اسے مدنی ہونا چاہیے۔ لیکن صحابہ اور تابعین کا جو طریقہ آیات اور سورتوں کی شان نزول کے بارے میں تھا، اس کی تشریح اس سے پہلے ہم سورۂ دہر کے دیباچے میں کر چکے ہیں۔ اس لیے کسی صحابی کا یہ کہنا کہ یہ آیت فلاں موقع  پر نازل ہوئی، اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا نزول اُسی وقت ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے ہوش سنبھالنے کےبعد جب پہلی مرتبہ حضور ؐ کی زبان مبارک سے یہ سورۃ سنی ہو اس وقت اِس کے آخرت حصّے  سے خوف زدہ ہو کر انہوں نے حضور ؐ سے وہ سوالات کیے ہوں جو اوپر درج کیے گئے ہیں، اور اس واقعہ کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہو کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو  میں نے حضور ؐ سے یہ عرض کیا ۔ اگر یہ روایت سامنے نہ ہو تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا ہر شخص یہی محسوس کرے گا کہ یہ مکّی سورۃ ہے، بلکہ اس کے مضمون اور اندازِ بیان سے تو اس کو  محسوس ہو گا کہ یہ مکّہ کے بھی اُس ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی جب نہایت مختصر اور انتہائی دل نشین طریقہ سے اسلام کے بنیادی عقائد لوگوں کے سامنے پیش کیے جا رہے تھے۔

موضوع اور مضمون:  اِس کا موضوع  ہے موت کے بعد دوسری زندگی اور اُس میں اُن سب اعمال کا پورا کچا چِٹّھا انسان کے سامنے آجانا جو اُس نے دنیا میں کیے تھے۔ سب سے پہلے تین مختصر فقروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہوگی اور وہ انسان کے لیے کیسی حیران کُن ہو گی۔ پھر دو فقروں میں بتایا گیا ہے کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کیے ہیں ، اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اُس کے افعال کی گواہی دے گی، اُس روز اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول  پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کر دے گی کہ کس وقت کہاں اُس نے کیا کام کیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اُس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں گے تا کہ اُن کے اعمال اُن کو دکھا دیے جائیں، اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمّل ہو گی اور مفصّل ہو گی کہ کوئی ذرّہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آجائے۔
www.tafheemulquran.net