اس رکوع کو چھاپیں

سورة البینة حاشیہ نمبر۳

یعنی اُن کے اِس حالتِ کفر سے نکلنے کی کوئی صورت اِس کے سوا نہ تھی کہ ایک دلیلِ روشن آکر اُنہیں کفر کی ہر صورت کا غلط اور خلافِ حق ہونا سمجھائے اور راہِ راست کو واضح اور مدلّل طریقے سے ان کے سامنے پیش کر دے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس دلیل ِ روشن کے آجانے کے بعد وہ سب کفر سے باز آجانے والے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دلیل کی غیر موجودگی میں تو ان کا اِس حالت سے نکلنا ممکن ہی نہ تھا۔ البتہ اس کے آنے کے بعد بھی اُن میں سے جو لوگ اپنے کفر پر قائم رہیں اُس کی ذمہ داری پھر اُنہی پر ہے ، اس کےبعد وہ اللہ سے یہ شکایت نہیں کر سکتے کہ آپ نے ہماری ہدایت کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا ۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے ۔ مثلاً سُورۂ نحل میں فرمایا وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ، ”سیدھا راستہ بتانا اللہ کے ذمّہ ہے“(آیت۹)۔ سُورہ ٔ  لَیل میں فرمایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی، ”راستہ بتانا ہمارے ذمّہ ہے“(آیت۱۲)۔ اِنَّآ اَوْ حَیْنَآ اَلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلیٰ نُوْحٍ وَّ النَّبِیِّیْنَ مِنْ م بَعْدِہ ۔۔۔۔۔۔ رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِ رِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ، ”(اے نبی )  ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اُس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی تھی ۔۔۔۔۔ اِن رسولوں کو بشارت دینے والا  اور خبردار کرنے والا بنایا گیا تا کہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجّت نہ رہے“(النساء، ۱۶۵-۱۶۴)۔ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآ ءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآ ءَ نَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ، فَقَدْ جَآءَکُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ،” اے اہلِ کتاب تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا  نہ خبردار کرنے والا۔ سو لو اب تمہارے پاس بشارت دینے والا اور  خبردار کرنے والا آگیا“(المائدہ۔۱۹)۔