اس رکوع کو چھاپیں

سورة القدر حاشیہ نمبر۱

اصل میں الفاظ ہیں  اَنْزَ لْنٰہُ،”ہم نے نازل کیا ہے۔“ لیکن بغری اس کے کہ پہلے قرآن کا کوئی ذکر ہو ، اشارہ قرآن ہی کی طرف ہے، اس لیے کہ ”نازل کرنا“ خود بخود اس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے۔ اور قرآن مجید میں اِس امر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ اگر سیاق کلام  یا اندازِ  بیان سے ضمیر کا مرجع خود ظاہر  ہو رہا ہو تو ضمیر ایسی حالت میں بھی استعمال کر لی جاتی ہے جب کہ اُس کے مرجع کا ذکر پہلے یا بعد میں کہیں نہ کیا گیا ہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حاشیہ۹)۔
یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہۃ الْقُرْآنُ۔ ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے“(البقرہ۔ ۱۸۵)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِ حرا ء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ  ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اِس رات کو یہاں شبِ قدر کہا گیا ہے اور سورۂ دُخان میں اِسی کو مبار ک رات فرمایا گیا ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ۔”ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے“(آیت۳)۔
اِس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اِس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتًا فوقتًا ۲۳ سال کے دوران میں جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المُنْذِر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مَرْدُوْیَہ، بَیْہقِی)۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اِس رات سے ہوئی۔ یہ امام شَعْبِی کا قول ہے، اگرچہ اُن سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے  جو ابن عباس کا اوپر گزر ا ہے۔ (ابن جریر) بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اُسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوتِ اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی ، بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوعِ انسانی کی پیدائش، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیاء  پر نازل کی جانے والی کتابوں ، اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمانے اور آپ پر  قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شبِ قدر میں صرف یہ  کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری  حصّے پر عملدر آمد شروع ہو گیا۔ اُس وقت اگر پورا قرآن حاملین وحی کے حوالہ کر دیا گیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے۔
قدْر کے معنی بعض مفسّرین نے تقدیر کے لیے ہیں، یعنی یہ وہ رات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے  کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سُورۂ دُخان کی یہ آیت کرتی ہے  فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ،” اُس رات میں حر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے“(آیت ۵)۔ بخلاف اس کے امام زُہری کہتے ہیں قدْر کے معنی عضمت و شرف کے ہیں، یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اِس معنی کی تائید اِسی سورۃ کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے کہ ”شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔“
اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسی رات تھی ، تو اس میں  اتنا اختلا ف ہوا ہے  کہ قریب قریب، ۴۰ مختلف اقوال اِس کے بارے میں ملتے ہیں۔ لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت  یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شبِْ قدر ہے، اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ستائیسویں رات ہے۔ اِس معاملہ میں جو معتبر  احادیث منقول ہوئی ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا کہ وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے (ابوداؤد طَیَا لِسی)۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے (مُسند احمد)۔
حضرت اُبَیّ بن کَعب سے زِرّبن حُبَیش نے شب قدر کے متعلق پوچھا  تو انہوں نے حلفًا کہا اور استثنا ء نہ کیا کہ وہ ستائیسویں رات ہے( احمد، مسلم، ابو داؤد، تِرْمِذی، نَسائی، ابن حِبّان)۔
حضرت ابو ذر سے سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ، حضرت حُذَیْفَہ ؓ اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بہت سے لوگوں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے (ابن ابی شَیْبَہ)۔
حضرت عُبادہ بن صامِت ؓ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے ، اکیسویں، یا تئیسویں، یا پچیسویں، یا ستائیسویں، یا انتیسویں، یا آخری(مُسند احمد)۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  کہتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں ۹ دن باقی ہوں، یا سات دن باقی ہوں، یا پانچ دن باقی ہوں(بخاری)۔ اکثر اہلِ علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور ؐ  کی مراد طاق راتوں سے تھی۔
حضرت ابو بکرہ کی روایت ہے کہ ۹ دن باقی ہوں، یا سات دن ، یا پانچ دن ، یا تین دن، یا آخری رات، مراد یہ تھی کہ اِن تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو (ترمذی ، نسائی)۔
حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو(بخاری، مسلم، احمد ، ترمذی)۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا ہے۔

اس معاملہ میں جو روایات حضرت معاویہ ؓ،حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ بزرگوں سے مروی ہیں اُن کی بنا پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں رمضان ہی کو شبِ قدر سمجھتی ہے۔ غالبَا کسی رات کا تعیُّن اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اُٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس  وقت مکّۂ معظمہ میں رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصّے میں دن ہوتاہے ، اس لیے اُن علاقوں کے لوگ تو کبھی شبْ قدر کو پاہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات  کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی اِن تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصّہ میں ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شبِ قدر ہو سکتی ہے۔