اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم |
سورة العلق |
رکوع | ||||||||||||||||||||||||||||||
نام : دوسری آیت کے لفظ عَلَقَ کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول : اس سورۃ کے دو حصّے ہیں ۔ پہلا حصّہ اِقْراْ سے شروع ہو کر پانچویں آیت کے الفاظ مَا لَمْ یَعْلَمْ پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا حصّہ کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی سے شروع ہو کر آخر سُورۃ تک چلتا ہے۔ پہلے حصّے کے متعلق علمائے امّت کی عظیم اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ سب سے پہلے وحی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اِس معاملہ میں حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُن کر آغازِ وحی کا پورا قصہ بیان کیا ہے۔ اِس کے علاوہ ابن عباسؓ ، ابو موسیٰ اشعریؓ اور صحابہ کی ایک جماعت سے یہی بات منقول ہے کہ قرآن کی سب سے پہلی آیات جو حضور ؐ پر نازل ہوئیں وہ یہی تھیں۔ دوسرا حصّہ بعد میں اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَرَم میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو دھمکیاں دے کر اس سے روکنے کی کوشش کی۔ آغازِ وحی: محدّثین نے آغازِ وحی کا قصّہ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ امام زُہْری سے ، اور انہوں نے حضرت عُروَہ بن زُبَیر سے اور انہوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے۔وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچّے(اور بعض روایات میں ہے اچھے) خوابوں کی شکل میں ہوئی۔ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ جیسے آپ دن کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور کئی کئی شب و روز غارِ حرا میں رہ کر عبادت کرنے لگے (حضرت عائشہؓ نے تَحَنُّث کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تشریح امام زُہْرِی نے تعبُّد سے کی ہے۔ یہ کسی طرح کی عبادت تھی جو آپ کرتے تھے، کیونکہ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عبادت کا طریقہ نہیں بتایا گیا تھا)۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خَدِیجہؓ کے پاس واپس آتے اور وہ مزید چند روز کے لیے سامان آپ کے لیے مہیا کر دیتی تھیں۔ ایک روز جبکہ آپ غارِ حرا میں تھے ، یکایک آپ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتے نے آکر آپ سے کہا پڑھو۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے کہا” میں تو پڑھا ہو انہیں ہوں۔“ اس پر فرشتے نے مجھے پکر کر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت ِ برداشت جواب دیے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا”میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس نے دوبارہ مجھے بھینچا اور میری قوت ِ برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے پھر کہا”میں توپڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس نے تیسری بار مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری قوتِ برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اِقْرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ (پڑھو اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا) یہاں تک کہ مَا لَمْ یَعْلَمْ ( جسے وہ نہ جانتا تھا) تک پہنچ گیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نپتے لرزتے ہوئے وہاں سے پلٹے اور حضرت خَدِیجہؓ کے پاس پہنچ کر کہا” مُجھے اُڑھاوٴ، مجھے اُڑھاوٴ “۔ چنانچہ آپ کو اڑھا دیا گیا۔ جب آپ پر سے خوفزدگی کی کیفیت دور ہو گئی تو آپ نے فرمایا”اے خدیجہؓ ، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔“ پھر سارا قصّہ آپ نے اُن کو سنایا اور کہا”مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔“ انہوں نے کہا” ہر گز نہیں، آپ خوش ہو جائیے، خدا کی قسم، آپ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں ، (ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ امانتیں ادا کرتے ہیں)، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں۔“ پھر وہ حضورؐ کو ساتھ لے کر وَرَقَہ بن نَوفَل کے پاس گئیں جو اُن کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہء جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے، بہت بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے اُن سے کہا بھائی جان ، ذرا اپنے بھتیجے کا قصّہ سُنیے۔ وَرَقَہ نے حضورؐ سے کہا بھتیجے تم کو کیا نظر آیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ وَرَقَہ نے کہا”یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جو اللہ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہء نبوت میں قوی جوان ہوتا۔ کاش میں اُس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟“ وَرَقَہ نے کہا”ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور اُس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپ کا وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی پُر زور مدد کروں گا۔“ مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ دوسرے حصہ کا شانِ نزول : اِس سُورہ کا دوسرا حصّہ اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَرَم میں اسلامی طریقہ پر نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو ڈرا دھمکا کر اِس سے روکنا چاہا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ نبی ہونے کےبعد قبل اِس کے کہ حضورؐ اسلام کی عَلانیہ تبلیغ کا آغاز کرتے، آپ نے حَرَم میں اُ س طریقے پر نماز ادا کرنی شروع کر دی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی تھی ، اور یہی وہ چیز تھی جس سے قریش نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ آپ کسی نئے دین کے پیرو ہو گئے ہیں۔ دوسرے لوگ تو اِسے حیرت ہی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، مگر ابو جہل کی رگِ جاہلیت اِس پر پھڑک اُٹھی اور اس نے آپ کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اِس طریقے پر حرم میں عبادت نہ کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی احادیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں جن میں ابو جہل کی اِن بیہودگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ |
www.tafheemulquran.net |
جلد ششم | اگلا رکوع
| پچھلا رکوع
|
رکوعھا1 |
|
سورة العلق مکیة
|
اٰیاتُھَا 19 |
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے پڑھو 1 (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ 2 جس نے پیدا کیا، 3 جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ 4 پڑھو، اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، 5 انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ 6
|
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ۰۰۱خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۰۰۲اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ۰۰۳الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۰۰۴عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْؕ۰۰۵كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤىۙ۰۰۶اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىؕ۰۰۷اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰىؕ۰۰۸اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰىۙ۰۰۹عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ؕ۰۰۱۰اَرَءَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤىۙ۰۰۱۱اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى ؕ۰۰۱۲اَرَءَيْتَ اِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىؕ۰۰۱۳اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى ؕ۰۰۱۴كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ١ۙ۬ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِۙ۰۰۱۵نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍۚ۰۰۱۶فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗۙ۰۰۱۷سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَۙ۰۰۱۸كَلَّا١ؕ لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْؒؑ۰۰۱۹ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع | پچھلا رکوع |