اس رکوع کو چھاپیں

سورة التین حاشیہ نمبر۶

دوسرا ترجمہ اس آِت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”پس(اے انسان) اِس کے بعد کیا چیز تجھے جزا و سزا کو جُھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے ۔“ دونوں صورتوں میں مدّعا ایک ہی رہتا ہے۔ یعنی جب یہ بات عَلانیہ انسانی معاشرے میں نظر آتی ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کی ہوئی نوعِ انسانی میں سے ایک گروہ اخلاقی پستی میں گِرتے گِرتے سب نیچوں سے نیچ ہو جات اہے ، اور دوسرا گروہ ایمان و عملِ صالح اختیار کر کے اِس گِراوٹ سے بچا رہتا ہے اور اُسی حالت  پر قائم رہتا ہے جو بہترین ساخت پر انسان کے لیے پیدا کیے جانے سے مطلوب تھی، تو اِس کے بعد جزا و سزا کو کیسے جھُٹلایا جا سکتا ہے ؟ کیا عقل  یہ کہتی ہے کہ دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں ہو؟ کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ نہ اَسْفَلَ السَّافِلین میں گرنے والوں کو کوئی سزا دی جائے اور نہ اُس سے بچ کر پاکیزہ زندگی اختیار کرنے والوں کو کوئی جزا ؟ یہی بات دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اِس طرح فرمائی گئی ہے کہ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَا لْمُجْرِمِیْنَ، مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ ” کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں؟ تمہیں کیا ہوگیا  ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟“(القلم، ۳۶-۳۵)۔ اَمْ حِسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَ حُوْا السَّیِّاٰتِ اَنْ تَجْعَلَہُمْ کَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْ ا الصّٰلِحٰتِ سَوَآ ءٌ مَّحْیَا ھُمْ وَمَمَا تُہُمْ، سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔ ”کیا برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم  اُنہیں اُن لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے؟ دونوں کی زندگی اور موت یکساں ہو؟ بہت بُرے  حکم ہیں جو یہ  لوگ لگاتے ہیں“(الجاثیہ۔ ۲۱)۔