اس رکوع کو چھاپیں

سورة التین حاشیہ نمبر۵

جن مفسّرین نے اَسْفَلَ سَافِلِیْن سے مراد بُڑھاپے کی وہ حالت لی ہے  جس میں انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اِس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ  ”مگر جن  لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں اُن کے لیے بُڑھاپے کی اِس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جائیں گی اور اُنہی کے مطابق وی اجر پائیں گے۔ اُن کے اجر میں اِس بنا پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اِس  دور میں اُن سے وہ نیکیاں  صادر نہیں ہوئیں۔“ اور  جو مفسّرین اسفل سافلین کی طرف پھیر ے جانے کا مطلب جہنّم کے ادنیٰ ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں ان کے نزدیک اِس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” ایمان لا کر عملِ صالح کرنے والے لوگ اِس سے مستثنیٰ ہیں، وہ اس درجہ کی طرف نہیں پھیرے جائیں گے، بلکہ اُن کو وہ اجر ملے گا جس  کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔“ لیکن یہ دونوں معنی اُس استدلال سے مناسبت نہیں رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اِس سورت میں کیا گیا ہے ۔ ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اخلاقی پستی میں گرنے والے لوگ گِرتے گِرتے سب نیچوں سے نیچ ہو جاتے ہیں، اُسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ  خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی زندگی عملِ صالح کے سانچے میں دھال لی وہ اِس پستی میں گرنے سے بچ گئے اور اُسی احسنِ تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا، اس لیے وہ اجرِ غیر ممنون کے مستحق ہیں، یعنی ایسے  اجر کے جو نہ اُن کے استحقاق سے کم دیا جائے گا ، اور نہ اُس کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا۔