اس رکوع کو چھاپیں

سورة الم نشرح حاشیہ نمبر۳

یہ بات اُس زمانہ میں فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فردِ فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکّہ تک محدود ہیں اُس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا اور کیسی ناموَری اس کو حاصل ہو گی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اِن حالات میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا۔ سب سے پہلے آُ کے رفعِ ذِکر کا کام اُس نے خود آپ کے دشمنوں سے لیا۔ کفّارِ مکّہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار  کیے اُن میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھِچ کھِچ کر اُن کےشہر میں آتے تھے، اُس زمانہ میں کفّار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبر دار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے، بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے ، اس لیے ذرا اُس سے بچ کر رہنا۔ یہی باتیں وہ اُن سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں میں زیارت یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکّہ آتے تھے۔ اِس طرح اگرچہ وہ حضور ؐ  کو بدنام کر رہے تھے، لیکن اِس کا نتیجہ یہ  ہوا  کہ عرب کے گوشے گو شے  میں آپ کا نام پہنچ گیا اور مکّہ کے گوشہ ٔ گمنامی سے نکار کر خود دشمنوں نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرادیا۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اُس کے ”جادو“ سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے ”جادو“ کا آخر کیا  اثر  پڑا ہے؟  کفّارِ مکّہ کا پروپیگنڈا جنتا جنتا بڑھتا چلا گیا لوگوں میں یہ جستجو بھی بڑھتی چلی گئی۔ پھر جب اِس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آُ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا، جب لوگوں نے قرآن سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں جو آپ پیش فرما رہے ہیں  ، اور جب دیکھنے والوں نے یہ دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے مُتاثر ہونے والوں کی زندگیاں عرب کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں ، تو وہی بدنامی نیک نامی سے بدلنی شروع ہو گئی، حتیٰ کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک  نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں  شاید ہی کوئی قبیلہ ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی  و دلچسپی رکھنے والے پیدا ہو گئے ہوں۔ یہ حضور ؐ کے رفعِ ذکر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف منافقین، یہود، اور تمام عرب  کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے، اور دوسری طرف مدینۂ طیبہ کی اسلامی ریاست خداپرستی و خدا ترسی ، زہد و تقویٰ، طہارتِ اخلاق، حسنِ معاشرت، عدل و انصاف، انسانی مساوات، مالداروں کی فیاضی، غریبوں کی خبر گیری، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخّر کرتا چلا جا رہا تھا۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعہ سے حضور ؐ کے اِس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی،  مگر آپ کی قیادت میں اہلِ ایمان کی جو جماعت تیار ہوئت تھی  اس نے اپنے نظم و ضبط، اپنی شجاعت، اپنی موت سے بے خوفی، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سارے عرب نے ان کا لوہا مان لیا۔ ۱۰ سال  کے اندر حضور ؐ کا رفعِ ذِکر اِس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اپنا سارا زور لگا دیا تھا، اُس کا گوشہ گوشہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً ارَّسُوْلُ اللہ کی صدا سے گونج اٹھا۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح  خلافت ِ راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نامِ مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے کہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ  مرتبہ اذان  میں بآواز بلند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں حضور ؐ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکرِ خیر نہ کیا جا رہا ہو، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے  کوئی دن اور دن کے ۲۴ گھنٹوں  میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور ؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ یہ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ اُس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفعِ ذِکر اس شان سے اور اِتنے بڑے پیمانے پر ہوگا۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خُدرِی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ” جبریل ؑ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا میرا ربّ اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفعِ ذِکر کیا؟ میں عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جائے گا“(ابن جریر، ابن ابی حاتم، مُسند ابو یعلیٰ، ابن المُنذِر، ابن حِبّان، ابن مردویہ، ابو نُعَیم)۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت  دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔