اس رکوع کو چھاپیں

سورة الضحٰی حاشیہ نمبر۷

اصل میں لفظ ضَآلًّا استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اِس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کے مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کِدھر جاؤں۔ ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں، چنانچہ عربی محاورے میں کہتے ہیں ضَلَّ المَآ عُ فِی اللَّبَنِ، پانی دودھ میں گُم ہو گیا۔ اُس درخت کو بھی عربی میں ضَالّہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو۔ ضائع ہونے کے لیے بھی ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کوئی چیز نا مواقف اور ناسازگار حالات میں ضائع ہو رہی ہو۔ غفلت کے لیے بھی ضلال کا  لفظ استعمال ہوتا ہے، چنانچہ خود قرآن مجید میں اِس کی مثال موجود ہے کہ  لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی،(طٰہٰ۔۵۲)۔ ”میرا ربّ نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے۔“ اِن مختلف معنوں میں سے پہلے معنی  یہاں چسپاں نہیں ہوتے ، کیونکہ بچپن سے قبلِ نبوّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو  حالات تاریخ میں موجود ہیں اِن میں کہیں اِس بات کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ آپ ؐ کبھی بُت پرستی ، شرک یا دُہریّت میں مبتلا ہوئے ہوں، یا جاہلیّت کے جو اعمال ، رسم اور طور طریقے آپ ؐ کی قوم میں پائے جاتے تھے ان میں سے کسی میں آپ ؐ ملوث ہوئے ہوں۔ اِس لیے لا محالہ  وَوَجَدَ کَ  ضَآلًّا  کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا۔  البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں۔ نبوّت سے پہلے حضور ؐ اللہ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے،  اور آپ ؐ کی زندگی گناہوں سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی ، لیکن آپ ؐ کو دینِ حق اور اس کے اُصول  اور احکام کا علم نہ تھا،  جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے  مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ (الشوریٰ، آیت ۵۲)۔ ”تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں کوئی خبر تھی“۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ حضور ؐ ایک  جاہلی معاشرے میں گُم ہو کر رہ گئے تھے اور ایک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ ؐ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایاں نہیں ہو رہی تھی۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں آپ ؐ  ایک  اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں پھل لانے اور ایک پورا باغ کا باغ پیدا کر دینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں آرہی تھی۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی قوتیں آپ ؐ  کو عطا کی تھیں وہ جاہلیت کے ناسازگار ماحول میں ضائع ہو رہی تھیں ۔ ضلال کو غفلت کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے ، یعنی آپ ؐ اُ ن حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو آگاہ فرمایا ۔ یہ بات خود قرآن میں بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے: وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ (یوسف۳) ” اور اگرچہ تم  اِس سے پہلے اِن باتوں سے غافل تھے۔“(نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت ۲۸۲، اور الشعراء آیت ۲۰)۔