اس رکوع کو چھاپیں

سورة الضحٰی حاشیہ نمبر۳

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بند رہا تھا۔ مختلف روایات میں یہ مدّت مختلف بیان کی گئی ہے۔ ابن جُرَیج نے ۱۲ روز ، کَلْبِی نے ۱۵ روز، ابن عباس ؓ نے ۲۵ روز، سُدِّی اور مُقاتِل نے ۴۰ روز اس کی مدّت بیان کی ہے۔  بہرحال یہ زمانہ اِتنا طویل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس پر سخت غمگین ہوگئے تھے اور مخالفین بھی آپ کو طعنے دینے لگے تھے ، کیونکہ حضور ؐ پر جو نئی سورت نازل ہوتی تھی اسے آپ ؐ لوگوں کو سنایا کرتے تھے، اس لیے جب اچھی خاصی مدت تک آپ ؐ نے کوئی نئی وحی لوگوں کو نہیں سُنائی  تو مخالفین نے سمجھ لیا کہ وہ سرچشمہ بند ہو گیا ہے جہاں سے یہ کلام آتا تھا۔ جُنْدُب بن عبد اللہ البَجَلی کی روایت ہے کہ جب جبریل علیہ السلام کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو مشرکین نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اُن کے ربّ نے چھوڑ دیا ہے( ابن جریر ، طَبَرانی، عبد بن حُمَید، سعید بن منصور، ابن مَرْ دُوْیَہ)۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کی بیوی امّ جمیل نے، جو حضور ؐ کی چچی ہوتی تھی اور جس کا گھر حضور ؐ  کے مکان سے متصل تھا، آپ سے کہا ”معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے“۔ عَو فی اور ابن جریر نے ابن عبار ؓ  کی روایت نقل کی ہے کہ کئی روز تک جبریل کی آمد رُک جانے سے حضور ؐ  پریشان ہو گئے اور مشرکین کہنے لگے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے انہیں چھوڑ دیا ہے ۔ قَتَادہ اور ضَحّاک کی مُرْسَل روایات میں بھی قریب قریب یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اِس صورت حال میں حضور ؐ کے شدید رنج  و غم کا حال بھی متعدد روایات میں آیا ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ محبوب کی طرف سے بظاہر عدمِ التفات ، کفر و ایمان کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بعد اُسی ذریعۂ طاقت سے بظاہر محرومی جو اس جاں گُسِل کشمکش کے منجدھار میں آپ ؐ  کے لیے واحد سہارا تھا، اور اُس پر مزید دشمنوں کی شَماتَت ، یہ ساری چیزیں مل جل کر لا محالہ حضور ؐ کے لیے سخت پریشانی کا موجب ہو رہی ہوں گی اور آپ ؐ کو بار بار یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں  ہو گیا ہے کہ میرا ربّ مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اور اس نے مجھے حق و باطل کی اِس لڑائی میں تنہا چھوڑ دیا ہو۔

اِسی کیفیت  میں یہ سورۃ حضور ؐ کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی۔ اِس میں دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم کھا کر حضور ؓ سے فرمایا گیا  کہ تمہارے  ربّ نے نہ تمہیں چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ اِس بات پر ان دونوں چیزوں کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دن کا روشن ہونا اور رات کا تاریکی اور سکون لیے ہوئے چھا جانا کچھ اِس بنا پر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ دن کے وقت لوگوں سے خوش اور رات کے وقت اُن سے ناراض ہو جاتا ہے، بلکہ یہ دونوں حالتیں ایک عظیم حکمت و مصلحت کے تحت طاری ہوتی ہیں، اُسی طرح تم پر کبھی وحی بھیجنا اور کبھی اُس کو روک لینا  بھی حکمت و مصلحت کی بنا پر ہے، اِس کو کوئی تعلق اِس بات سے نہیں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ  تم سے خوش ہو تو وحی بھیجے، اور جب وہ وحی نہ بھیجے تو اس کے معنی یہ ہوں کہ وہ تم سے ناخوش ہے اور اس نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری مناسبت اِس مضمون سے اِس قَسم کی یہ ہے کہ جس طرح دن کی روشنی اگر مسلسل آدمی پر طاری رہے تو وہ اسے تھکا دے، اس لیے ایک وقتِ خاص تک دن  کے روشن رہنے کے بعد رات کا آنا ضروری ہے تاکہ اس میں انسان کو سکون ملے ، اُسی طرح وحی کی روشنی اگر تم پر پے درپے پڑتی رہے تو تمہارے اعصاب اس کو برداشت نہ کر سکیں گے ، اس لیے وقتًا فوقتًا فَتْرۃ (نزول ِ وحی کا سلسلہ رک جانے) کا ایک زمانہ  بھی اللہ تعالیٰ نے مصلحت کی بنا پر رکھا ہے تاکہ وحی کے نزول سے جو بار تم پر پڑتا ہے اس کے اثرات زائل ہو جائیں اور تمہیں سکون حاصل ہو جائے۔ گویا آفتابِ وحی کا طلوع بمنزلۂ روز روشن ہے اور زمانۂ فَتْرۃ بمنزلۂ سکونِ شب۔