اس رکوع کو چھاپیں

سورة الضحٰی حاشیہ نمبر۱۱

نعمت کا لفظ عام ہے جس سے مراد وہ نعمتیں بھی ہیں جو اس سورہ  کے نزول کے وقت تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک کو عطا فرمائی تھیں ، اور وہ نعمتیں بھی جو بعد میں اُس نے اپنے اُن وعدوں کے مطابق آپ کو عطا کیں جو اِس سورہ میں اُس  نے کیے تھے اور جن کو اُس نے بدرجۂ  اَتم پورا کیا۔ پھر حکم یہ ہے کہ اے نبی ؐ ہر نعمت جو اللہ نے تم کو دی ہے اُس کا ذکر اور اُس کا اظہار کرو۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ نعمتوں کے ذکر اور اظہار کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور ہر نعمت اپنی نوعیت کے لحاظ سے اظہار کی ایک خاص صورت چاہتی ہے۔ مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور اس بات کا اقرار و اعتراف کیا جائے کہ جو نعمتیں بھی مجھے حاصل ہیں یہ سب اللہ کا فضل و احسان ہیں ورنہ کوئی چیز بھی میرے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں ہے۔ نعمتِ نبوت کا اظہار اس طریقہ سے ہو سکتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا حق ادا کیا جائے۔ نعمتِ قرآن کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ اُس  کی اشاعت کی جائے اور اس کی تعلیمات لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں۔ نعمتِ ہدایت کا اظہار اِس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو سیدھا راستہ بتایا جائے اور اس کام کی ساری تلخیوں اور تُرشیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ یتیمی میں دستگیری کا جو احسان اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ یتیموں کے ساتھ ویسے ہی احسان کا سلوک کیا جائے۔ نادار سے مالدار بنا دینے کا جو احسان اللہ نے کیا اُس کا اظہار یہی صورت چاہتا ہے کہ  اللہ کے محتاج بندوں کی مدد کی جائے۔ غرض یہ ایک بڑی جامع ہدایت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات و احسانات بیان کرنے کے بعد  اِس مختصر سے فقرے میں اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔