اس رکوع کو چھاپیں

سورة الیل حاشیہ نمبر۵

اس راستے کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اُس پر چلنے والا اگرچہ مادّی فائدوں اور دنیوی لذّتوں اور ظاہری کامیابیوں کے  لالچ میں اِس کی طرف جاتا ہے ، لیکن اِس میں ہر وقت اپنی فطرت سے ، اپنے ضمیر سے، خالقِ کائنات کے بنائے ہوئے قانون سے ، اور اپنے گردوپیش کے معاشرے سے اُس کی جنگ برپا رہتی ہے۔ صداقت، دیانت، امانت ، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ ہر طریقے  سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے ، اور جب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے ، تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اُس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اُسے آگے بڑھنا  پڑتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اِس روش کی بدولت اُسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی  ہوتی ہیں، اور اگر وہ مال دار، طاقتور اور با اثر ہو، تو چاہے دنیا اُس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس  کے لیے خیر خواہی ، عزّت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتیٰ کہ  اس کے شریک کا ر بھی اُس کو  خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بدکرداری کا رویّہ اختیار کرتی ہیں، تو ایک طرف باہر کی دنیا اُ ن کی دشمن ہو جاتی ہے ، اور دوسری طرف خود اُن کا اپنا معاشرہ جرائم، خودکشی، نشہ بازی، امراض خبیثہ ، خاندانی زندگی کی تباہی ، نوجوان نسلوں کی بدراہی ،  طبقاتی کشمکش ، اور ظلم و جَور کی روز افزوں و با سے دوچار ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ بامِ عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لیے لعنت اور پھِٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی۔

اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کر لی جائے گی، برائی کے  دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے، اُسی کے اسباب اور وسائل اس کے لیے فراہم کر دیے جائیں گے، بدی کرنا اس کے لیے آسان  ہو گا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے اس کی جان پر بن رہی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ  ”جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے  کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے“(الانعام، آیت ۱۲۵)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے  ”بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کے لیے نہیں“(البقرہ، آیت ۴۶)۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا ”وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کَسْمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں“(التوبہ، آیت۵۴)۔ اور یہ کہ  ”ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اُسے اپنے  اوپر زبردستی کی چَٹّی سمجھتے ہیں“(التوبہ، آیت ۹۸)۔