سورة الیل حاشیہ نمبر۳ |
|
یہ ہے مساعی کی اِس قسم کی نتیجہ ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فرت کے مطابق ہے ، جو اُس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنےجسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبر دستی کر کے اُن سے وہ کام نہیں لیتا جس کے لیے یہ طاقتیں اُس کو نہیں بخشی گئی ہیں بلکہ وہ کام لیتا ہے جس کے لیے درحقیقت یہ اُس کو بخشی گئی ہیں، جس میں انسان کو ہر طرف اُس جنگ ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش آتا ہے جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے، بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسّر آتی چلی جاتی ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کر رہے ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو کسی کے ساتھ بے ایمانی ، بد عہدی اور بے وفائی نہ کرے، جس سے کسی کو خیانت، ظلم اور زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو ، بہر حال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے، اُس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے، اُس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اُس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورۂ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍا اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰو ۃً طَیِّبَۃً۔ جو شخص نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے“(آیت ۹۷)۔ اور اسی بات کو سورۂ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُو ا ا لصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّ حْمٰنُ وُدًّا۔ ” یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا“(آیت ۹۶)۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سُرور ہی سُرور اور راحت ہی راحت ہے۔ اِس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ |