اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشمس حاشیہ نمبر۷

اوپر کی آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیا گیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جارہی ہے۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں اُن دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات ۷ تا ۱۰ میں بیان کی گئی ہیں۔
اولاً ان میں  فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے اُس کا فجور اور اُس کا تقویٰ اُس پر الہام کر دیا۔ قرآن مجید اِس حقیقت کو بیان کرنے  کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقویٰ کا یہ الہامی علم اِس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود ہی اُس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے ، بلکہ اِس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصّل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ  یہ بتا دیا گیا  کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقویٰ کس چیز کا نام ہے اور  وہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اِس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقویٰ کا راستہ پا سکتا ہے۔
ثانیاً اِن آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقویٰ میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقویٰ سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے، اور اس کے اچھے رحجانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نا مرادی اور ہلاکت و بربادی ۔

اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تاریخی نظیر پیش کی  جارہی ہے  اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہلِ مکّہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی۔ شمالی حجاز میں اُس کے تاریخی آثار موجود  تھے جن سے اہلِ مکّہ شام کی طرف اپنے تجارتی  سفروں میں  ہمیشہ گزرتے رہتے تھے ، اور جاہلیت کے اشعار میں  جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا۔