اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشمس حاشیہ نمبر۶

یہ ہے وہ بات جس پر اُن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی ہیں ۔ اب غور کیجیے کہ وہ چیزیں اِس پر کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ قرآن  میں اللہ تعالیٰ  کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ انسان کے ذہن نشین کرا نا چاہتا ہے ، اُن کی شہادت میں وہ سامنے کی چند ایسی نمایاں ترین چیزوں کو پیش کرتا ہے جو ہر آدمی کو اپنے گرد و پیش کی دنیا میں ، یا خود اپنے وجود میں نظر آتی ہیں۔ اِسی قاعدے کے مطابق یہاں دو دو چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں اس لیے اُن کے آثار اور نتائج بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ لازمًا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف چاند۔ سورج کی روشنی نہایت تیز ہے اور اس میں گرمی بھی ہے۔ اس کے مقابلہ میں چاند اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتا۔ سورج کی موجودگی میں وہ آسمان پر موجود ہ بھی ہو تو بے نُور ہوتا ہے ۔ وہ اُس وقت چمکتا ہے جب سُورج چھُپ جائے اور اُس وقت بھی اس کی روشنی   نہ اتنی تیز ہوتی ہے  کہ رات کو دِن بنا دے، نہ اُس  میں کوئی گرمی ہوتی ہے کہ  وہ کام کر سکے جو سورج کی گرمی کرتی ہے ۔ لیکن اُس کے اپنے کچھ اثرات ہیں جو سورج کے  اثرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف دن ہے اور دوسری طرف رات۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کے اثرات اور نتائج باہم اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی اُن کو یکساں نہیں کہہ سکتا حتیٰ کہ ایک بے وقوف سے بے  وقوف آدمی کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ رات ہوئی تو کیا اور دن ہوا تو کیا، کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایک طرف آسمان ہے جسے خالق نے بلند اٹھایا ہے اور دوسری طرح زمین ہے جسے پیدا کرنے والے نے آسمان کے نیچے فرش کی طرح بچھا دیا ہے۔ دونوں اگرچہ ایک ہی کائنات اور اس کے نظام اور اس کی مصلحتوں کی خدمت کر رہے ہیں ، لیکن دونوں کے کام اور ان کے اثرات  و نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اِن آفاقی شہادتوں کو پیش کرنے کے بعد خود انسان کے  اپنے نفس کو لیا گیا ہے  اور بتایا گیا ہے  کہ اسے اعضا اور حواس اور ذہنی قوتوں کے متناسب امتزاج  سے ہموار کر کے خالق نے اس کے اندر بھلائی اور بڑائی، دونوں کے میلانات، رُحجانات اور محرکات رکھ دیے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور الہامی طور پر اسے اِن دونوں کا فرق سمجھا دیا ہے کہ ایک فجور ہے اور وہ بُری چیز ہے، اور دوسرا تقویٰ ہے، اور وہ اچھی چیز ۔ اب اگر سورج اور چاند، دن اور رات، زمین اور آسمان یکساں نہیں ہیں بلکہ ان کے اثرات اور نتائج ایک دوسرے سے لازمًا مختلف ہیں، تو نفس کا فجور اور تقویٰ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود یکساں کیسے ہو سکتے ہیں۔ انسان  خود اِس دنیا میں بھی نیکی اور بدی کو یکساں نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا۔ خواہ اس نے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں کی رو سے خیر و شر کیے کچھ بھی معیار تجویز کر لیے ہوں ، بہر حال جس چیز کو بھی وہ نیکی سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ قابل قدر ہے ، تعریف اور صلے اور انعام کی مستحق ہے۔ بخلاف اِس کے جس چیز کو بھی وہ بدی سمجھتا ہے ، اس کے بارے میں اس کی اپنی بے لاگ رائے یہ ہے کہ وہ مذمت اور سزا کی مستحق ہے۔ لیکن اصل فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اُس خالق کے ہاتھ میں ہے جس نے انسانن کا فجور اور تقویٰ اُس پر الہام کیا ہے۔ فجور وہی ہے جو خالق کے نزدیک فجور ہے اور تقویٰ وہی ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ ہے۔ اور خالق کے ہاں اِن دونوں کے دو الگ نتائج ہیں۔ ایک کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے وہ فلاح پائے ، اور دوسرے کا  نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو دبا دے وہ نامراد ہو۔

تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا ابھارنا اور نشو نما دینا۔ سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو فجور سے پا ک کرے، اس کو اُبھار کر تقویٰ کی بلندی پر لے جائے اور اُس کے اندر بھلائی کو نشوونمادے وہ فلاح پائے گا۔ اس کے مقابلہ میں دَسّٰھَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تَدْسِیَہ ہے۔ تدسیہ کے معنی دبانے، چھُپانے، اِغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رحجانات کو ابھارنے اور نشو ونما دینے کے بجائے اُن کو دبا دے، اُس کو بہکا کر برائی کے رحجانات کی طرف لے جائے، اور فجور کو اُس پر اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اس کے نیچے اِس طرح چھپ  کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے۔ بعض مفسّرین نے اس آِت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ  قَدْ  اَفْلَحَ مَنْ  زَکَّی اللہُ نَفْسَہٗ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّی اللہُ نَفْسَہٗ، یعنی فلاح پا گیا وہ جس کے نفس کو اللہ نے پاک کر دیا اور  نا  مراد ہوا وہ جس کے نفس کو اللہ نے دبا دیا۔ لیکن یہ تفسیر اول تو زبان کے لحاظ سے قرآن کے طرزِ بیان کے خلاف ہے ، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو یہی بات کہنی مقصود ہوتی تو وہ یوں فرماتا کہ قَدْ اَفْلَحَتْ مَنْ زَکّٰھَا اللہُ وَقَدْ خَابَتْ مَنْ دَسّٰھَاللہُ (فلاح پا گیا وہ نفس  جس کو اللہ  نے پاک کر دیا اور نامراد ہو گیا وہ نفس جو اللہ نے دبا دیا)۔ دوسرے یہ تفسیر اِسی موضوع پر قرآن کے دوسرے بیانات سے ٹکراتی ہے۔ سورۂ اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی، ”فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی“(آیت ۱۴)۔ سورۂ عَبَسَ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا وَمَا عَلَیْکَ اِلَّا یَزَّکّٰی، ”اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی نہ اختیار کرے“۔ اِن  دونوں آیتوں میں انسان کا امتحان لیا جا رہاے ہے ۔ مثلاً سُورۂ دہر میں فرمایا ”ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کی آزمائش کریں اِسی لیے اُسے ہم نے سمیع و بصیر بنایا“(آیت۲)۔ اور سُورۂ مُلک میں فرمایا” جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تمہیں آزمائے  کون تم میں بہتر عمل کر نے والا ہے“(آیت ۲)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ امتحان سرے سے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اگر امتحان لینے والا پہلے ہی ایک امیدوار کو ابھار دے اور دوسرے کو   دبا دے۔ اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے کہ جو قَتَادَہ، عِکْرِمَہ مجاہد اور سعید بن جُبَیر نے بیان کی ہے کہ زَکّٰھَا اور دَسّٰھَا کا فاعل بندہ ہے  نہ کہ خدا۔ رہی وہ حدیث جو ابن ابی حاتم نے  عن جُوَیْبِر بن سعید عن الضحّاک عن ابن عباس کی سند سے نقل کی ہے کہ  خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اَفْلَحَتْ نَفْسٌ زَکَّا ھَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس  کو اللہ عز و جل نے پاک کر دیا ، تو یہ ارشاد در حقیقت حضور سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند  میں جُوَ یبِر متروک الحدیث ہے اور ابن عباس  سے ضحّاک کی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ البتہ وہ حدیث صحیح ہے جو امام احمد، مسلم ، نَسائی اور ابن ابی شَیْبَہ نے حضرت زید بن اَرقم سے روایت کی ہے کہ حضور ؐ یہ دُعا مانگا کرتے تھے کہ الّٰہمّ اٰتِ نفسی تقواھا و زَکِّھا انتَ خیر من زکّاھا، انت ولیُّھا و مَولا ھا۔ ”خدایا میرے نفس کو اُس کا تقویٰ عطا کر اور اس کو پاکیزہ کر، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے  جس اس کو پاکیزہ کر ے، تو ہی اُس کا  سرپرست اور مولیٰ ہے“۔ اِسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضور ؐ کی یہ دعا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ طَبَرانی، ابن مَرْدُوْیَہ اور ابن المُنْذِر نے اور حضرت عائشہ ؓ  سے امام احمد نے نقل کی ہے۔ اس کا مطلاب درحقیقت یہ ہے کہ  بندہ تو صرف تقویٰ اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے،  رہا اس کا نصیب ہو جانا، تو وہ بہر حال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔ اور یہی  حال تَدْسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا ، مگر جب بندہ اُس پر تُل جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے تقویٰ اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کریتا ہے اور اُسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کےڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے۔