اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشمس حاشیہ نمبر۵

الہام کا لفظ لَہْم سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں۔ لَھَمَ الشَّیَٔ وَ الْتَھَمَہٗ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا۔ اور اَلْھَمْتُہُ الشَّیْءَ کے معنی ہیں میں نے فلاں چیز اُس کو نگلوا دی یا اس کے حلق  سے اتار دی۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصطلاحًا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی تصور یا کسی خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نفسِ انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیز گاری الہام کر دینے کے دومطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رحجانات و میلات رکھ  دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اند ر محسوس کرتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصورات و دیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے اور کوئی چیز بُرائی، اچھے ا خلاق و اعمال اور بُرے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بدکرداری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (بُرائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز ۔ یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اُس کی فطرت اِن سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائشی طور پر اُس کو عطا کر دی ہے ۔ یہی بات سُورۂ بَلَد میں فرمائی گئی ہے کہ وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۔” اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے “ (آیت۱۰)۔ اِسی کو سورۂ دَھر میں یوں بیان فرمایا گیا ہے  اِنَّا ھَدَیْنٰہْ السَّبِیْلَ اِمَّا شَا کِرًا وَّاِمَّا کَفُوْ رًا۔”ہم نے اس کو راستہ دکھادیا خواہ شاکر بن کر رہے یا کفار“(آیت۳)۔ اور اسی بات سورۂ قیامہ میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک نفس لوّامہ (ضمیر) موجود ہےے جو برائی کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے (آیت ۲) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (آیات ۱۴ تا ۱۵)۔

اِس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اُس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سُورۂ طٰہٰ میں ارشاد ہوا  ہے کہ اَلَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی۔ ”جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت عطا  کر پھر راہ دکھائی“(آیت ۵۰)۔ مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی عالم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندے کو اُڑنا، شہد کی مکھی کو چھتّہ بنایا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آجاتا ہے۔ انسان کو بھی اُس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اِس حیثیت سے جو الہامی علم اُس کو دیا گیا ہے اُس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دُودھ چُوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔ اُس کی  دوسری حیثیت یہ ہے کہ  وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اِس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش  کے آغاز سے مسلسل اُس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے درپے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدّن میں ترقی کرتا رہا ہے ۔ اِن ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک ابتدا اِسی طرح ہوتی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آگئی اور اُس کی بدولت اُس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اِس ی حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کا امتیاز ، اور خیر کے خیر  اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس  ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات  سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی  پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام  میں بھلائی اور بُرائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار  نہ کی گئی ہو۔ اِس چیز کا ہر زمانے ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اِس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اِس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالقِ حکیم و د انا نے اِسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے ، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادّی نظام چل رہا ہے اُن کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشان دہی  نہیں کی جا سکتی۔