اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشمس حاشیہ نمبر۴

ہموار کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ایسا جسم عطا کیا جو اپنے قامتِ راست اور اپنے ہاتھ پاؤں ، اور اپنے دماغ کے اعتبار سے انسان کی سی زندگی بسر کرنے کےلیے موزوں ترین تھا۔ اُس کودیکھنے، سننے، چھونے ، چکھنے اور سونگھنے کے ایسے حواس عطا کیے جو اپنے تناسب اور اپنی خصوصیات کی بنا پر اس کے لیے بہترین ذریعۂ علم بن سکتے تھے۔ اس کو قوتِ عقل و فکر، قوتِ استدلال و استنباط، قوتِ خیال، قوتِ حافظہ، قوتِ تمیز، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادی اور دوسری ایسی ذہنی قوتیں عطا کیں جن کی بدولت وہ دنیا میں اُس کام کے قابل ہوا جو انسان کے کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ ہموار کرنے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اُسے پیدائشی گناہ گار اور جِبِلّی بدمعاش بنا کر نہیں بلکہ راست اور سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اس کی ساخت میں کوئی خِلقی کجی نہیں رکھ دی کہ وہ سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے۔ یہی بات  ہے جسے سورۂ روم میں  بایں الفاظ  بیان کیا گیا ہے کہ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا، ”قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے“(آیت ۳۰)۔ اور اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے کہ  ”کوئی بچہ ایسانہیں ہے جو فطرت کے سوا کسی اور چیز پر پیدا ہوتا ہو، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا  نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے  جیسے جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ کیا تم ان میں کسی کا کان کٹا  ہو ا پاتے ہوں؟“(بخاری و مسلم) یعنی یہ مشرکین ہیں جو بعد میں اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر جانوروں کے کان کاٹتے ہیں ، ورنہ خدا کسی جانور کو ماں کے پیٹ سے کٹے ہوئے کان لے کر پیدا نہیں کرتا۔ ایک اور حدیث میں حضور ؐ  کا ارشاد ہے ” میرا ربّ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (صحیح الفطرت) پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آکر ان کوان کے دین( یعنی ان کے فطری دین) سے گمراہ کر دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام  کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن کو شریک کریں جن کے شریک ہو نے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی“(مُسند احمد۔ مسلم نے بھی اِس سے ملتے جُلتے الفاظ میں حضور ؐ  کا یہ ارشاد نقل کیا ہے)۔