اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۶

یعنی کیا یہ انسان جو اِن حالات میں گھرا ہوا ہے، اِس غَرّے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے، کوئی بالاتر اقتدار اُس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اِس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اُس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا ، ہوا کا ایک طوفان، دریاؤں اور سمندروں کی ایک طغیانی اُسے ی بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے  با اقتدار آدمی کو عرش سےفرش پر لاگراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اُسی دنیا میں ذلیل و خوا ر ہو کر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی اُن سے آنکھ ملانے کی ہمّت نہ رکھتا تھا۔ اِس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا؟