اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۱۳

یعنی اِن اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل عملِ صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاں وہ مقبول ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اِس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابلِ قدر اور ذریعۂ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو۔ مثلاً سورۂ نساء میں فرمایا جو نیک اعمال کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور  ہو وہ مومن، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے“(آیت ۱۲۴)۔ سورۂ نحل میں فرمایا ”جو نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو اُن کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے“(آیت ۹۷)۔  سورۂ مومن میں فرمایا”اور جو نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، وہاں اُن کو بے حساب رزق دیا جائے گا“(آیت ۴۰)۔ قرآن ِ پاک  کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عملِ صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازمًا اُس کے ساتھ ایمان کی شرط لگی ہوئی ہے۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید  دلائی گئی ہے۔

اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ  سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ  ”پھر وہ ایمان لایا“ بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ”پھر وہ اُن لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے“۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ ہے  کہ ہر ایمان لانے والا اُن دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اِس سے اہلِ ایمان کی ایک جماعت بنے، ایک مومن معاشرہ  وجود میں آئے ، اور اجتماعی طور پر اُن بھلائیوں کو قائم کیا جائے جن کا قائم کرنا، اور اُن برائیوں  کو  مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے۔