اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفجر حاشیہ نمبر۱۸

نفس ِ مطمئن سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک و شبے کے بغیر پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کو اپنا ربّ اور انبیاء کے لائے ہوئے دین ِ حق کو اپنا دین قرار دیا ، جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول  ؐ  سے ملا اور اُسے سراسر حق مانا، جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اُس سے بادل نا خواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ رُک گیا کہ فی الواقع وہ بُری چیز ہے ، جس قربانی کی بھی حق پرستی کی راہ میں ضرورت پیش آئی  بے دریغ اُسے پیش کر دیا،  جن مشکلات اور تکالیف اور مصائب سے  بھی اس راہ میں سابقہ درپیش ہوا اُنہیں  سکونِ قلب کے ساتھ  برداشت کیا ، اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد اور منافع اور  لذائد حاصل ہوتے نظر  آرہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہ ہوئی بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین ِ حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اِسی کیفیت کو دوسری جگہ قرآن پاک میں شرحِ صدر سے تعبیر کیا گیا ہے (الانعام، آیت  ۱۲۵)۔