اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة الغاشیة

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :  پہلی ہی آیت کے لفظ الغاشیۃ کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :  سورۃ کا پورا مضمون اِس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بھی ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب حضور ؐ تبلیغِ  عام شروع کر چکے تھے اور مکّہ کے لوگ بالعموم اُسے سُن سُن کر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔

موضوع اور مضمون:   اِس کے موضوع کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ زیادہ تر دو ہی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کرنے پر مرکوز تھی۔ ایک توحید ،دوسرے آخرت۔ اور اہلِ مکہ اِن دونوں باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے ۔ اِس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اب  اِس سورہ کے مضمون اور اندازِ بیان  پر غور کیجیے۔
اس میں سب سے پہلےغفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چَونکانے کے لیے اچانک اُن کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں اُ س وقت کی بھی کچھ خبر ہے جب سارے عالَم پر چھا جانے والی ایک آفت نازل ہو گی؟ اِس کے بعد فوراً ہی یہ تفصیل بیان کرنی شروع کر دی گئی ہے کہ اُس وقت سارے انسان دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر دو مختلف انجام دیکھیں گے۔ ایک وہ جو جہنّم میں جائیں گے اور اُنہیں ایسے اور ایسے سخت عذاب جھیلنے ہوں گے۔ دوسرے وہ جو عالی مقام جنّت میں جائیں گے اور اُن کو ایسی اور ایسی نعمتیں میسّر ہوں گی۔
اس طرح لوگوں کو چونکانے کے بعد یکلخت مضمون تبدیل ہوتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ جو قرآن کی تعلیم ِ توحید اور خبرِ آخرت کو سُن کر نا ک بھوں چڑھا رہے ہیں، اپنے سامنے کی اُن چیزوں کو نہیں دیکھتے جن سے ہر وقت انہیں سابقہ پیش آتا ہے؟ عرب کے سحرا میں جن اُونٹوں پر ان کی ساری زندگی کا انحصار ہے، کبھی یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ کیسے ٹھیک اُنہی خصوصیات کے مطابق بن گئے جیسی خصوصیات کے جانور کی ضرورت ان کی صحرائی زندگی کے لیے تھی؟ اپنے سفروں میں جب یہ چلتے ہیں تو انہیں یا آسمان نظر آتا ہے، یا پہاڑ، یا زمین ۔ انہی تین چیزوں پر یہ غو ر کریں۔ اوپر یہ آسمان کیسے چھا گیا؟ سامنے یہ پہاڑ کیسے کھڑے ہو گئے؟ نیچے یہ زمین کیسے بِچھ گئی؟ کیا یہ سب کسی قادرِ مطلق صانعِ حکیم کی کاریگری کے بغیر ہو گیا ہے؟ اگر یہ مانتے ہیں کہ ایک خالق نے بڑی حکمت اور بڑی قدرت کےساتھ ان چیزوں کو بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا ان کی تخلیق میں شریک نہیں ہے ، تو اسی کو اکیلا ربّ ماننے سے انہیں کیوں انکار ہے؟ اور اگر یہ مانتے ہیں کہ وہ خدا یہ سب کچھ پیدا کرنے پر قادر تھا ، تو آخر کس معقول دلیل سے انہیں یہ ماننے میں تأمُّل ہے کہ وہی خدا قیامت  لانے پر بھی قادر ہے؟ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے؟ جنت اور دوزخ بنانے پر بھی قادر ہے؟
اس مختصر اور نہایت معقول استدلال سے بات سمجھانے کے بعد کفّار کی طرف سے رُخ پھیر کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا جاتا ہے اور آپ ؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں ، تم اِن پر تو جبّار بنا کر تو مسلط کیے گئے نہیں ہو کہ زبردستی ان سے منوا کر ہی چھوڑو۔ تمہارا کام نصیحت کرنا ہے، سو تم نصیحت کیے جاؤ۔ آخر کار انہیں آنا ہمارے ہی پاس ہے۔ اُس وقت ہم ان سے پورا پورا حساب لے لیں گے اور نہ ماننے والوں کو بھاری سزا دیں گے۔

www.tafheemulquran.net