اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة الاعلیٰ

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :  پہلی ہی آیت  سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ کے لفظ  اَلْاَعْلیٰ  کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :  اِس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، اور آیت نمبر ۶ کے یہ الفاظ بھی کہ ” ہم تمہیں پڑھوا دیں گے ، پھر تم نہیں بھُولو گے“ یہ بتاتے ہیں کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزولِ وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اُس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اِس آیت کے ساتھ اگر سورۂ طٰہٰ کی آیت ۱۱۴، اور سورۂ قیامہ کی آیات ۱۹-۱۶ کو ملا کر دیکھا جائے ، اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیان اور موقع و محل پر بھی غو ر کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اِس سُورہ میں حضور ؐ کو اطمینان دلایا گیا  کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اِسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد ، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دُہرانے لگے۔ اُس وقت فرمایا گیا کہ ” اے نبی، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی  زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کر ا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اِس کی قرأت  کو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا دینا  بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے۔“ آخری مرتبہ سورۂ طٰہٰ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ ۱۱۳ آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں اِن میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نکل نہ جائے اور آپ اُن کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا ” اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔“ اِس کے بعد پھر کبھی اِس کی نوبت نہیں آئی کہ حضور ؐ کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ اِن تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اِس معاملہ کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔

موضوع اور مضمون: اِس چھوٹی سی سورۃ کے تین موضوع ہیں۔ توحید۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات ۔ اور آخرت۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اِس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اُس کو کسی ایسے نام سے یا د نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں اُن سب کی جڑ اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اُس ذاتِ پاک کے لیے کسی  غلط نام کی شکل اختیار کی ہے۔ لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف اُن اسماء حسنیٰ ہی سے یا د کیا جائے جو اُس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
اِس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمہارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اُس کا تناسب قائم کیا، اُس کی تقدیر بنائی، اُسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے اُس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ زمین پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انہیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بَہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔
پھر دو آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ اِس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو اپ پر نازل کیا جا رہا ہے ، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے  میں محفوظ  کر دینا ہمارا کام ہے، اور اس کا محفوظ رہنا آپ کے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے، ورنہ  ہم چاہیں تو اسے بھُلا دیں۔
اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے سپرد ہر ایک کو راہِ راست پر لے آنے کا کام نہیں کیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے ، اور تبلیغ کا سیدھا  سادھا  طریقہ یہ ہے کہ جو نصیحت سننے اور قبول کر نے کے لیے تیار ہوا اُسے نصیحت کی جائے اور جو اُس کے لیے تیار نہ ہو اُس کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ جس کے دل میں گمراہی کے انجامِ بد کا خوف ہو گا وہ حق بات کو سن کر قبول کر لے گا اور جو بدبخت اُسے سننے اور قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اپنا بُرا انجام خود دیکھ لے گا۔
          آخر میں کلام کو اِس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ فلاح صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں ساری فکر بس اِسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے ، حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کی نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں بدرجہا بڑھ کر ہیں۔ یہ حقیقت صرف قرآن ہی میں نہیں بتائی جارہی ہے ، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ  اور حضرت موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں بھی انسان کو اِسی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا۔

www.tafheemulquran.net