اس رکوع کو چھاپیں

سورة الطارق حاشیہ نمبر۱

نگہبان سے مراد خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو زمین  و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال اور حفاظت کر رہی ہے، جس کے وجود میں لانے سے ہر شے وجود میں آئی ہے، جس کے باقی رکھنے سے ہر شے باقی ہے، جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے، اور جس نے ہر چیز کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے اور اُسے ایک مدت مقررہ تک آفات سے بچانے کا ذمّہ لے رکھا ہے۔ اس بات پر آسمان کی اور رات کی تاریکی میں نمو دار ہونے والے ہر ستارے اور سیارے کی قسم کھائی گئی ہے(النجم الثاقب کا لفظ اگرچہ لغت کے اعتبار سے واحد ہے، لیکن مراد اُس سے ایک ہی تارا نہیں بلکہ تاروں کی جنس ہے)۔یہ قسم اِس معنی میں ہےکہ رات کو آسمان میں یہ بے حدوحساب تارے اُس سیارے  جو چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا وجود اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی ہے جس نے اُسے بنایا ہے، روشن کیا ہے، فضا میں معلق رکھ چھوڑا ہے، اور اس طرح اس کی حفاظت و نگہبانی کر رہا ہے کہ نہ وہ اپنے مقام سے گرتا ہے، نہ بے شمار تاروں کی گردش کے دوران میں وہ کسی سے ٹکراتا ہے اور نہ کوئی دوسرا تارا  اس سے ٹکراتا ہے۔