اس رکوع کو چھاپیں

سورة البروج حاشیہ نمبر۴

گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ  عذاب الہٰی کے مستحق ہوگئے۔ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ایک بُرجوں والے آسمان کی۔ دوسرے ، روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے تیسرے ، قیا مت کے ہولناک مناظر کی  اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس  بات پر شہادت دے رہی ہے کہ  جو قادر مطلق  ہستی کا ئنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیّاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے  یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جا سکتے ہیں۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر  کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا ، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبر دار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مضمون کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔ تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہلِ ایمان کو جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔
گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں  پھینکنے کے  متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ حضرت صُہیب رومی نے  رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشا ہ کے پاس ایک ساحر تھا۔ اُس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کر دیں جو مجھ سے سحر سیکھ لے۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کر مقرر کر دیا مگر وہ لڑکا گھر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی( جو غالباً پیروان مسیح علیہ السلام میں سے تھا) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتٰی کہ اس کی تربیت  سے صاحب کرامت ہو گیا اور اندھوں کو  بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو  اس نے پہلے  تو راہب کو قتل کیا، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا، مگر کوئی ہتھیا ر اور کوئی حربہ اس پر کا ر گر نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں  بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ (اس لڑکے کے رب کے نام پر کہہ کر مجھے تیر مار میں مر جاؤں گا ۔ چنانچہ بادشاہ نے  ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا۔ اس لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر  ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ   یہ تو وہی کچھ ہو گیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔ بادشاہ کی حالت دیکھ کر غصہ میں بھر گیا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے، ان میں آگ بھروائی، اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول کیا اس کو آگ میں پھکوا دیا( احمد، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن جریر، عبد الرزاق، ابن ابی شیْبہ، طَبرانی، عبد بن حُمید)۔
دوسرا واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زناہ کر ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہو گئے۔ بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کر دیا ہے۔ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا ، یہاں تک کہ وہ آگ سے بھرے  گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھکواتا چلا گیا جس نے  اسے ماننے سے انکار کیا۔ حضرت علی کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرّمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے(ابن جریر)۔
تیسرا واقعہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دین موسیٰ علیہ السلام سے پھیر جانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگے سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔(ابن جریر، عبد بن حمید)۔
سب سے مشہور واقعہ نَجْران کا ہے جسے ابن ہشام ، طَبری، ابن خُلدون اور صاحب مُعْجمَ البُلْدان وغیرہ اسلامی مورخین نے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر(یمن) کا بادشاہ تُبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کر لیا اور بنی قُریظہ کے دو یہودیوں عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی ۔ اس کا بیٹا ذونو اس  اس کا جا نشین ہوا اور اس نے نجران پر ، جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا ، حملہ کیا تا کہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کر ے ۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کے اصل دین پر قائم تھے)۔نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور بہت سوں کو قتل کر دیا، یہاں تک کہ مجموعی طور پر بیس ہزار آدمی مارے گئے۔ اہلِ نجران میں سے ایک شخص  دَوس  ذُ و ثَعلَبان بھاگ نکلا اور ایک  روایت کی رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے  ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو دیکھا، اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بہری بیڑا فراہم کرنے کی درخواست کی ۔ بہر حال  آخر کار حبش کی ستر ہزار فوج اَریا ط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی، ذونواس مارا گیا ، یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا  ، اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔
اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی زرائع سے ہوتی ہے بلکہ  ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلتاہے۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ سن ۳۴۰ میں ہوا تھا اور ۳۷۸ تک جاری رہا تھا۔ اُس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہوئے۔ اُسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحبِ کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیون(Faymiyun ) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہلِ نجران عیسائی ہوگئے۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے۔ ایک سید، جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارجی معاملات، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا۔ دوسرا عاقبِ ، جو داخلی معاملات کا نگراں تھا۔ اور تیسرا اُسْقُف (بِشپ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا۔ ٹسر،چمڑے اور اسلحہ کی صنعتین یہاں چل رہی تھی۔ مشہور حُلّہ یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا۔ اِسی بنا پر محض مذہبی وجود ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے سُریانی مورخین Arethas لکھتے ہیں، قتل کیا، اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دوبیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا، پھر اسے بھی قتل کر دیا۔ اُسقف پال(paul ) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں۔ اور آگ سے بھر ے ہوئے گڑھوں میں عورت، مرد ، بچے ، بوڑھے، پادری، راہب سب کو پھکوا دیا۔ مجموعی طور پر ۲۰ سے چالیس ہزار تک مقتولین کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳؁ میں پیش آیا تھا۔ آخر کار ۵۲۵؁ میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اُس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ  کر دیا۔ اس کی تصدیق حِصْن غُراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن موجودہ زمانہ کے محققینِ آثار قدیمہ کو ملا ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی متعدد عیسائی تحریرات میں اصحاب الاخدود کے اِس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اور عینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں۔ ایک پرو کو پیوس۔ دوسرا کوسما س اِنڈیکو پلیوسِٹس(Cosmos Indicopleustis ) جو نجاشی ایلیسبو عان (Elesboan )  کے حکم سے اس زمانے میں  بطلیموس کو یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور حبش کے ساحلی شہر  اَدُولیس(Adolis )  میں مقیم تھا۔ تیسرا یو حنس ملالا( Johannes Malala ) جس  سے بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد یوحنس افسوسی( Johannes Ofephesus ) متوفی ۵۸۵؁ میں  اپنی تاریخ کہنیسہ میں نصاری ٰ نجران کی تعذیب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر راوی اُسقُف مار شمعون(Simeon ) کے ایک خط سے نقل کیا ہے جو اس نے دیرجبلہ کے رئیس(Abbot von gabula ) کے نام لکھا تھا، اور مار شمعون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن آنکھو ں دیکھے بیان سے روایت  کیا  ہے جو اس موقع پر موجود تھے ۔ یہ خط ۱۸۸۱؁ میں روم سے اور ۱۸۹۰؁ میں شہدائے مسیحیت کے حالات  کے سلسلے میں شائع ہوا ہے ۔  یعقوبی طریق ڈایو نیسیوس (Patriarch Dionysius ) اور زکریا مدللی (Zacharia of Mitylene )  نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کو نقل کی اہے ۔ یعقوب سَرُوجی کی کتاب دربابِ نصاریٰ نجران میں بھِی یہ ذکر موجود ہے۔ الّرھا(Edessa ) کے اسقف پولس(Pulus ) نے نجران کے ہلاک شدگان کا مرثیہ لکھا جواب بھی دستیاب ہے۔ سریانی زبان کی تصنیف کتاب الحِمیرَ یین کا انگریزی ترجمہ( Book of the Himyarites ) ۱۹۲۴؁ میں لندن سے شائع ہوا ہے اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ برٹش میوزیم میں اُس عہد اوراس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں جو اِس قصے کی تائید کرتے ہیں۔ ظِبی نے اپنے سفرنامے (Highlands Arabian ) میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگو ں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اُمِّ خَرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں۔

           حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔ اس کے اَساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اُس کو حرم قرار دیا گیا تھا۔ رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لیے مالی اعانت بھیجی تھی۔ اِسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سید اور عاقب اور اُسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور مُباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت ۶۱ میں کیا گیا ہے(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، آل عمران حاشیہ۲۹،حاشیہ۵۵)۔