اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ انفطار حاشیہ نمبر۵

یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے، تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بتایا ہے ، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے، بلکہ ایک  خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں۔ عقل کا تقاضہ یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بارِ احسان سے جھک جاتا اور اُس رب کریم کے مقابلے میں تو  کبھی نا فرمانی کی جرأت نہ کرتا ۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم وکریم ہی نہیں ہے، جبار و قہار بھی ہے۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفا ن یا سیلاب آجاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں   نا کام ہو جاتی  ہیں ۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں ہے  بلکہ حکیم و دانا ہے ، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس  کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھیرا یا جائے جسےا ختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے ۔یہ سب حقیقتیں  تیرے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں، اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکہ میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔ تو خود جس کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو  کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے۔ اس لیے تیری اپنی یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہر گز اس کا معجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے  مقابلے میں جَری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں ، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔