اس رکوع کو چھاپیں

سورة النٰزعٰت حاشیہ نمبر۱۴

تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پُورا عالمِ بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیّارے ، بے حدوحساب شمسی نظام اور اَن گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑا ہی امرِ محال سمجھتے ہو، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہو چکی ہوں گی اُس حالت میں ہمارے پر اگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اِس عظیم کائنات کا بنا نا زیادہ سخت کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اِسی شکل میں پیدا کردینا؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اِس پر قادر نہ ہوسکے؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے ۔ مثلاً سورہ یٰس میں ہے”اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو (پھر سے ) پیدا کردے ؟ کیوں نہیں ، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے“(آیت۸۱)۔ اور سُورہ مومن میں فرمایا۔”یقیناً آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“(آیت۵۷)۔