اس رکوع کو چھاپیں

سورة النٰزعٰت حاشیہ نمبر۱۱

فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک موقع پر اس نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ”اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنا یا تو میں تمہیں قید کر دوں گا“(الشعراء، آیت۲۹)۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں لوگوں کو خطاب کرکے کہا” اے سردار انِ قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے“(القصص،آیت۳۸)۔ ان ساری باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا، اور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی  کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا۔قرآن مجید ہی میں اِس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ خٔد دوسرے معبُودوں کی پرستش کرتا تھا، چنانچہ اس کے اہلِ دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ”کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور آپ کو  اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں“؟(الاعراف، آیت۱۲۷)۔ اور قرآن میں فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسیٰ خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں کیوں نہ آئے؟(الزخرف،آیت۵۳)۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں میں بلکہ سیاسی معنی میں اپنے آپ کو الٰہ اور ربِّ اعلیٰ کہتا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک میں ہوں، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے، اور میرے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں ہے جس کا فرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ،تفہیم القرآن،جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۸۵۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۲۱۔الشعراء، حواشی۲۶،۲۴۔القصص، حواشی۵۲۔۵۳۔جلد چہارم،الزخرف، حاشیہ۴۹)۔