اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النباء حاشیہ نمبر۱۵

”اصل میں لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں پے در پے آنے والے طویل زمانے ، ایسے مسلسل ادوار کے ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے ۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ  جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہو گی مگر جہنم میں ہمیشگی نہیں ہو گی کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں، بہر حال جب مدتوں کا استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی مقصود ہو تا ہے کہ  وہ لا متنا ہی نہ ہوں گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ عربی  لغت کے لحاظ سے  حقب کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو ، اس لیے ا حقاب لازما ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے  چلے جائیں گے اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔ دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت میں سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولا غلط ہے جو اسی موضوع  کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو۔ قرآن میں ۳۴ مقامات پر  اہل جہنم کے لیے خلود(ہمیشگی )کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تین جگہ صرف لفظ خُلُوْد ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس پر  ابداً(ہمیشہ ہمیشہ)کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے ، اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ ”وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں، مگر وہ اس سے ہر گز نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے“(المائدہ،آیت۳۷)۔ایک دوسری جگہ فرمایاگیا ہے کہ ”اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہے الّا یہ کہ تیرا رب کچھ نہ چاہے“۔اور یہی بات اہل ِ جنت کے متعلق بھی فرمائی گئی ہے کہ ”جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم  ہیں  اِلّا یہ کہ  تیرا رب کچھ نہ چاہے“۔(ہود، آیات۱۰۷۔۱۰۸)۔ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی آخر کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہوگا بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا؟