اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النباء حاشیہ نمبر۱۰

مُراد ہے سورج۔ اصل میں لفظ وَھَّاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں اور نہایت روشن کے بھی، اس لیے ترجمہ میں ہم نے دونوں معنی درج کر دیے ہیں۔ اس مختصر سے فقرے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کا قُطر زمین کے قُطر سے۱۰۹ گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے ۳لاکھ۳۳ ہزار گنا زیادہ بڑا ہے۔ س کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ زمین سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دُور ہونے کے باوجود اُس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرتے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے، اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں میں اس کی تپش  کی وجہ سے درجہ حرارت ۱۴۰ ڈگری ظاہرن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اُس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اُس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دُور ہونے کے باعث بے انتہا سرد، اسی وجہ سے یہاں انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔ اُسی سے قوّت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں جو ہمارے لیے سببِ حیات بنے ہوئے ہیں۔ اُسی سے ہماری فصلیں پک رہی ہیں اور ہر مخلوق کوغذا بہم پہنچ رہی ہے۔ اُسی کی حرارت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں اُٹھاتی ہے جو ہواوں کے ذریعہ سے  زمین کے مختلف حصوں پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ اس سُورج میں اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سُلگا رکھی ہے جو اربوں سال سے روشنی ، حرارت اور مختلف اقسام کی شعاعیں سارے نظامِ شمسی میں پھینکے چل رہی ہے۔