اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النباء حاشیہ نمبر۱

بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اَہلِ مکہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے ، پھر ہر محفل میں اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ پُوچھ گچھ سے مُراد یہی چہ میگوئیاں ہیں۔ لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی، کبھی پہلے بھی تم  نے سُنا ہے کہ مر کے کوئی دوبارہ زندہ ہوگا؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑکر جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں ان میں نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں اُٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں روئی  کے گالوں کی طرح اُڑنے لگیں گے ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بُجھ کر رہ جائیں اور دنیا کا یہ سارا جما جما یا نظام اُلٹ پلٹ ہوجائے؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں ایسی عجیب اَنہونی خبریں سُنارہے ہیں ۔ یہ جنّت  اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں تھیں جن کا ذکر ہم نے کبھی اِن کی زبان سے نہ سُنا تھا؟ اب یہ ایک دم کہاں سے نکل آئی ہیں کہ اِنہوں نے اُن کو عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں؟

          ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ”وہ اس کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کر رہے ہیں“، دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتاہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ” ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں“۔ اُن میں سے کوئی عیسائیوں کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعدِ موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوگی۔کوئی آخرت کا قطعی مُنکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ، چنانچہ قرآن مجید ہی میں اس خیال کے لوگوں کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اِنْ نّظُنَّ اِلّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ،”ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے“(الجاثیہ آیت۳۱)، او ر کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ، ”جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہر گز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے“(الانعام۔آیت۲۹)۔ پھر کچھ لوگ ان میں سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ مَا ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُھْلِکْنَا اِلَّا الدَّھْرُ،”زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیزنہیں جو ہمیں ہلاک کر تی ہو“(الجاثیہ۔۲۴)۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو نا ممکن قرار دیتے تھے، یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں کو پھر سے زندہ کر سکے۔ ان کا قول تھا مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ،”کون اِن ہڈیوں کو زندہ کر ے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟“(یٰس۔۷۸)۔ یہ اُن کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اِس مسئلے میں کوئی علم نہ تھا، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تُکّے چلا رہے تھے،ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے (مزید تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم، الذاریات،حاشیہ۶)۔