اس رکوع کو چھاپیں

سورة المرسلٰت حاشیہ نمبر۱۵

یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ یہی ایک کُرہ زمین ہے جو کڑوروں اور اربوں سال سے  بت حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے، ہر قسم کی نبا تات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں، اور سب کی ضروریات پُوری کرنے کےلیے اِس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے اَتھاہ خزانے نکلتے چلے آرہے ہیں۔ پھر یہی زمین ہے جس پر اِن تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افرادروز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اِس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں یہ جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں ، زرخیز وادیوں کے وجود میں ، بڑے بڑے شہتیر فراہم کر نے والے درختوں کے اُگنے میں ، قسم قسم کے معدنیات اور طرح طرح کے پھتروں کی فراہمی میں  بہت بڑا دخل ہے۔ پھر اس زمین کے پیٹ میں  میٹھا پانی پیدا کیا گیا  ہے، اِس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے بر سانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادرِ مطلق نے یہ سب کچھ بنا یا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور اِن حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے، اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تا کہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں  کیے ہیں؟