اس رکوع کو چھاپیں

سورة المرسلٰت حاشیہ نمبر۱۰

یہاں فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ دنیا میں اُن کا جو انجام ہوا ہے یا آئندہ ہوگا وہ  اُن کی اصل سزا نہیں ہے، بلکہ اصلی تباہی تو اُن پر فیصلے کے دن نازل ہو گی۔ یہاں کی پکڑ تو صرف یہ حیثیت رکھتی ہے کہ جب کوئی شخص مسلسل جرائم کرتا چلا جائے اور کسی طرح اپنی بگڑی ہوئی روش سے باز نہ آئے تو آخر کار اسے گرفتار کر لیا جائے۔ عدالت، جہاں اس کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے اور اسے اس کے تمام کر توتوں کی سز ا دی جانی ہے، اس دنیا میں قائم نہیں ہوگی بلکہ آخرت میں ہوگی، اور وہی اُس کی تباہی کا اصل دن ہوگا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلددوم، الاعراف، حواشی۵۔۶۔ ہود ، حاشیہ۱،۵)۔