اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۷

اصل میں بَرِقَ الْبَصَرُ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے لُغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں کے چُندھیا جانے کے ہیں۔ لیکن عربی محاورے میں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خوف زدگی، حیرت، یا کسی اچانک حا دثہ سے دوچار ہو جانے کی صورت میں اگر آدمی ہَکَ دَک رہ جائے اور اس کی نگاہ اُس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آرہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اِسی مضمون کو قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ یُوں بیان کیا گیا ہے۔:اِنَّمَا یُؤَ خِّرُ ھُمْ لِیَوْمٍتَشْخَصُ فِیْہِ الْاَ بْصَارُ،”اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی“(ابراہیم،۴۲)۔