اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۳

اوپر کی دو دلیلیں ، جو قسم کی صور ت میں بیان کی گئی ہیں، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ )ایک یقینی امر ہے۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پُورے نہیں ہو سکتے ، اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے، کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اِس پر گواہی دے رہی ہے۔ اب یہ تیسری دلیل  یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی بعدِ موت ممکن  ہے۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ  بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگون کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خا ک میں مل کر پر اگندہ ہو چکا ہو، جن  کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہو چکی ہوں ، جن میں سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں  کے پیٹ میں جا چکا ہو، کوئی سمندر میں غرق ہو کر مجھلیوں کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہو جائیں اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے کبھی  وہ تھا؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی  پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اِس مختصر سے سوال کی شکل میں دے دیا ہے کہ ”کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی  جمع نہ کر سکیں گے“؟یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ جی اٹھو گے، تو بلا شبہ تمہارا اِس  نا ممکن سمجھنا بجا ہوتا۔مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرتے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو ، اِس کام سے عاجز ہے؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالقِ کائنات مانتا ہو، نہ اُس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہین کر سکتا۔ اور اگر کوءی نے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم آج جس جسم میں اِس وقت موجود ہو اس کے بے شمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہا ں کہاں سے جمع کر کے اُسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزاء کو جمع نہیں کر سکتا؟