اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۱۷

مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اُس سے توقعات وابسطہ کرنے، اس کے فیصلہ کا انتظار  کرنے، اس کے کرم کا امید وار ہونے کے معنی میں بولےجاتے ہیں، حتٰی کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہ میں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہے کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے ۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسری منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مقرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہوگا۔ بخاری کی روایت ہے کہ  اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیَاناً۔”تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے۔“مسلم اور ترمذی میں حضرت صُہیب کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں  داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دُوں؟ وہ عرض کریں گے کہ تم  نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور جہنم  سے بچا نہیں لیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام بھی انہیں اس سے زیادہ محبوب نہ ہوگا کہ وہ اپنے رب کی  دیدسے مشرف ہوں، اور یہی وہ مزید انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْ الْحُسْنیٰ وَزِیَادَۃ یعنی ”جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی “۔(یونس۔۲۶)بخاری ومسلم میں حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابو ہُریرہ سے  روایت ہے کہ لوگوں نے پوچھا  یا رسول اللہ ، کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھیں گے؟ حضورؐ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی دقّت ہوتی ہے  جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہوں ؟ لوگوں نے عرض کیا، نہیں ۔ آپ نے فرمایا اس طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ۔ اس مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری ومسلم میں حضرت جریربن عبداللہ سے مروی ہے ۔مسند احمد،ترمذی،دارقُطنی، ابنِ جریر ابن المنذر،طبرانی،بَیْقَہی،ابن ابی شَیْبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہلِ جنت میں کم سے کم درجہ کو جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وصیت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا ، اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھیں گے پھر حضورؐ نے یہی آیت پڑھی کہ”اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہونگے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے“۔ابن ماجہ میں حضرت جابربن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں گے، پھر جب تک اللہ ان سے پر دہ نہ فرمالےگا اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے اور اسی کی طرف دیکھتے رہے گے۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہلسنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہونگے۔ اور اس کی تاکید قرآن مجیدکی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کَلَّآ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذ لَّمَحْجُوْبُوْنَ”ہر گز نہیں، وہ (یعنی فُجّار) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہونگے“(المُطففین۔۱۵)۔اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فُجّار کے لیے ہوگی نہ کہ ابرار کے لیے۔

          یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت ، مقام،شکل اور رنگ میں سامنے موجود ہو، روشنی کی شعاعیں اُس سے مُنعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کو تصویر  منتقل ہو۔ کیا  اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اِس طرح قابلِ دیدک ہونے کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ انسان اس کودیکھ سکے؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے ۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی خاص صورت جس سے ہم اِس دنیا میں آشنا ہیں۔ دیکھنے کی حقیقت  یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بینائی کی صفت موجود ہو، وہ نابینا نہ ہو ، اور دیکھی جانے والی چیز اُس پر عیاں ہو،اس سے مخفی نہ ہو۔ لیکن دنیامیں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس  سے کوئی انسان یا حیوان بالفصل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے ، اور اس کے لیے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو ، اُس عضو میں  بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو، اُس کے سامنے ایک ایسی  محدُود مجسمّ رنگ دار  چیز حاضر ہو جس سے روشنی کی شعاعیں منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے۔اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اُسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اِس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اُس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے، ورنہ درحقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے ۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتاَئے کہ اس کا خدا بینا ہے یا نابینا؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک  عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں ، اور اس سے بینائی کےفعل کاصُدور اُسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے ، اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحب عقل وفہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار اس مخصوص شکل میں نہیں ہوگا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہوگی جس کام ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے ؟  واقعہ یہ ہے  کہ آخرت کے معاملات کوٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اُس سے  سابقہ پیش آنا ہے۔