اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۱۵

وہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے پہلی وجہ آیت نمبر ۵ میں بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کُھلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیو سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہے اس لیےدراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر اُبھارتی ہے اور پھر وہ عقلی دلیلیں بگاڑتا ہے تا کہ اپنے  اس انکار کو معقول ثابت کرے اب دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی ہے  منکرینِ آخرت چونکہ تنگ نطر اور کوتاہ بیں ہیں اس لیے اُن کی نگاہ میں ساری اہمیت انہیں نتاَئج کی ہیں جو اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں  اور اُن نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے  جو آخرت میں ظاہر ہونے والے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو فائدہ یا زلت یا خوشیاں حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں ساری محنتیں اور کوششیں کھپا دینی چاہیں کیونکہ اسے پالیا تو گویا سب کچھ پا لیا، خواہ آخرت میں اس کا انجام کتنا ہی برا ہو۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج وغم یہا ں پہنچ جائے وہی  دراصل بچنے کے قابل چیز ہے،قطعِ نظر اس سے کے اُس کو بر داشت کر لینے کا کتن ا ہی بڑا اجر آخرت میں مل سکتا ہو وہ نقد سودا چاہتے ہیں آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں نہ کسی نقصان کو گوارہ کر سکتے ہیں اس اندازِ فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں کرتے  ہیں تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ اندازِ فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہر حال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں ماننا ہے، خواہ اندرسے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہوں کہ آخرت کے امکان وقوع اور وجوب کی جو دلیلیں قرآن میں دی گئی ہیں وہ نہایت معقول  ہیں اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں وہ نہایت بودا ہے۔