اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۱۱

یہاں سے لے کر”پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے “تک  کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے، جیسا کہ ہم دیباچہ مین بیان کر آئے ہیں ، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضورؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلامِ الہٰی آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں، اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے۔ ایسی ہی صورت اُس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں، اسے یاد کرادینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، آپ مطمئن رہیں کہ اس کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام”ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے“ سے شروع ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ اِس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر اِن فقروں کو دیکھ کر  یہ محسوس کر تے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں۔ لیکن اِس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی بے ربطی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے۔ یہ درس اگر جوں  کا تُوں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اِس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں گے۔ لیکن جو شخص اُس اصل واقعہ سے واقف ہوگا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جُوں کا تُوں نقل کیا گیا ہے، اُسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے۔

          اوپر اِن آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے، بلکہ معتبر روایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔ مسند احمد، بخاری،مسلم،ترمذی،نسائی،ابن جریر،طبرانی،بیہقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبدا للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضورؐ  پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اِس خوف سے کہ کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں، جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دُہرانے لگتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَآ نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔۔۔۔۔ یہی بات شَعْبِی، ابنِ زید، ضَحّاک، حسن بصری،قتادہ،مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے۔