اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۴

یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔
اِن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پا کیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے  وہ صرف عقائد اور آخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پا کیز گی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو ”طہارت“کا ہم معنی ہو۔بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتاہے جس میں پاکی اور ناپا کی کے فرق اور پاکیزگی کےطریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔
دوسرا مفہوم اِن الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف سُتھرا رکھو۔ راہبانہ تصوّرات نے دنیا مین مذہبیت کا معیا یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ مَیلا کُچیلا ہو اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت مَیل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حِس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی ہے  مانوس ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اُس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔
تیسرا مفہوم اِس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس سُتھرا اور پاکیزہ توضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ رئیسوں اور نوابوں کے  لباس، مذہبی پیشہ وروں کے  لباس، متکبّر اور بر خود غلط لوگوں کے لباس، چھچورے اور کم ظرف لوگوں کےلباس، بدقوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کرلے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی بُرائی میں مبتلا نہیں ہے۔

          چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں  سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس،ابراہیم نَخَعی، شَعبی، عطاء،مجاہد،قتادہ،سعیدبن جُبَیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاھر الثیاب و فلان طاھر الذیل،”فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے“۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے بر عکس کہتے ہیں فلانٌ دَنِس الثیاب،”اس شخص کے کپڑے گندے ہیں“اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔