اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۳

یہ ایک نبی کا اولین کا م ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجا م دینا ہوتا ہے ۔ اُس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں  اُن سب کو نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا  بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر  کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے  اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیار ی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔

          اس مقام پر ایک اور لطیف  نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہو چکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی  کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیر تھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اُس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھو کا کام تھا۔ اسی لیے ”اٹھو اور خبر دار کرو“ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ”اپنے رب کی بڑائی  کا اعلان کرو“ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیےکھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی  کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔