اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۲۲

قرآن مجید میں چونکہ بالعموم”دل کی بیماری“سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶۷۲،۶۷۴، اور۶۸۰تا۶۸۲ پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں یہ معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ  میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو  اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر  وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گی اہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں  کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔