اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المزمل حاشیہ نمبر۴

یعنی تیز تیز رواں دواں نہ  پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تا کہ ذہن پُوری طرح کلام الہٰی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضآمین سے متا ثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکّر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خٔف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قر أت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر  اور تدبُّر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قر أ ت کا طریقہ حضرت اَنَس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتا یا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے(بخاری)۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور ؑ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤ۔ترمذی)۔دوسری ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور  ؐ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے( ترمذی۔نسائی)۔ حضرت حْذیفہ بن یَمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرآت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے(مسلم، نسائی)۔ حضرت ابو ذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور ؐ اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُم عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِر لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (اگرتو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح  ہو گئی(مسند احمد ، بخاری)۔