اس رکوع کو چھاپیں

سورة المعارج حاشیہ نمبر۵

سورہ حج، آیت ۴۷ میں ارشاد ہوا ہے” یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی  مچا رہے ہیں۔ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے“۔ سورہ السجدہ، آیت ۵ میں فرمایا گیا ہے” وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر (اُس کی رُوداد)اوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمارے شمار سے ایک ہزار سال ہے “  اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اُس کو دُور سمجھتے ہیں اور ہم اُسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں، اور اُنہیں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے۔ اور مدت بھی محض بطورِ مثال ہے، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں۔ انہی منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوعِ انسانی کو پیدا کیا گیاہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ فلاں ساعتِ خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کوئی انسان یہ نہیں جان سکتا  کہ یہ منصوبہ  کب شروع ہوا، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لیے طے کی گئی ہے ، کونسی ساعت اس کے اختتام کے لیے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی، اور کونسا وقت اس غرض کے لیے رکھا گیا ہے کہ آغازِ آفرنیش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر اُن کا حساب لیا جائے۔ اس منصوبے کے صرف اُس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے ۔ رہا اُس کا آغاز و انجام ، تو اسے جاننا تو درکنار، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے، کجا کہ ہم اُن حکمتوں کو سمجھ سکیں جو اس کے پیچھے لے آیا جائے، اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تواُسے اس بات کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے ، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج، حواشی ۹۲۔۹۳۔ جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ ۹)۔