اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة الحاقة

 

                                                       
۲
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام : سورة کے پہلےہی لفظ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول : یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں  میں سے ہے اور اس کے مضامین سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تو شروع ہو چکی تھی، مگر اس نے ابھی زیادہ شدت نہ اختیار کی تھی۔ مسند احمد میں حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ اسلام سے پہلے ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے کے لیے گھر سے نکلا مگر آپ مجھ سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہو چکے تھے۔ میں پہنچا تو آپ نماز میں سورہ الحاقہ پڑھ رہے تھے ۔ میں آپؐ  کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور سننے لگا۔ قرآن کی شانِ کلام پر میں حیران ہو رہا تھا کہ میرے دل میں یکایک خیال آیا کہ یہ شخص ضرور شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ فوراً ہی حضورؐ  کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے”یہ ایک رسولِ کریمؐ کا قول ہے کسی شاعر کا قول نہیں ہے“۔ میں نے اپنے دل میں کہا شاعر نہیں تو پھر کاہن ہے۔ اُسی وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے”اور نہ کسی کاہن کا قول ہے ۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے“۔ یہ سن کر اسلام میرے دل میں گہرا اُتر گیا۔ حضرت عمرؓ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة اُن کے قبولِ اسلام سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی، کیونکہ اس واقعہ کے بعد بھی ایک مدت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے اور وقتاً فوقتاً متعدد واقعات اُن کو اسلام سے متاثر کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ اپنی بہن کے گھر میں اُن کے دل پر وہ آخری ضرب لگی جس نے ان کو ایمان کی منزل پر پہنچا دیا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،دیباچہ سورہ مریم۔ جلدپنجم، دیباچہ سورہ واقعہ)۔

موضوع اور مضمون: اس  کا پہلا رکوع آخرت کے بیان میں ہے، اور دوسرا رکوع  قرآن کے مُنزَّل من اللہ اور محمد صلی للہ علیہ وسلم کے رسول ِ برحق ہونے کے بارے میں۔
پہلے رکوع کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا بر پا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آکر رہنی ہے۔ پھر آیت۴ سے ۱۲ تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخر کار خدا کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہیں۔ اس کے بعد آیت ۱۷ تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح بر پا ہوگی۔ پھر آیت۱۸ سے ۳۷ تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوعِ انسانی کے لیے ایک دوسری زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اُس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں اُن کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیامیں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن اُنہیں اپنے رب کو اپنا حساب دینا ہے، اور جنہوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کےاپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کر لیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور انہیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہو گا۔ اس کے بر عکس جن لوگوں نے خدا کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انہیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے ۔
دوسرے رکوع میں کفارِ مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسولِ کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھا نے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اُس کی رگِ گردن(یا رگِ دل)کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلا م ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انہیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔

www.tafheemulquran.net