اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحاقةحاشیہ نمبر۲۴

”حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اور جو کچھ تم کو نظر نہیں آتا، اُس  سب کی قسم میں اس بات پر کھاتا ہوں کہ یہ  قرآن کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو ایک ایسے رسول کی زبان سے ادا ہو رہا ہے جو کریم (نہایت معزز اور شریف)ہے۔ اب دیکھیے کہ یہ قسم کس  معنی میں کھائی گئی ہے۔ جو کچھ لوگوں کو نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ:
          (۱)اس کلام کو ایک ایسا شخص پیش کر رہا تھا جس کا شریف النفس ہونا مکہ کے معاشرے میں کسی سے چھپا ہوا نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ اخلاقی حیثیت سے یہ اُن کی قوم کا بہترین آدمی ہے۔ ایسے شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ لے کر اٹھ کھڑا ہو گا کہ خدا پر بُہتان باندھے اور اپنے دل دے ایک بات گھڑ کر اُسے خدا وندِ عالم کی طرف منسوب کر دے۔
          (۲)وہ یہ بھی علانیہ  دیکھ رہے تھے کہ اس کلام کو پیش کرنے میں اپنا کوئی ذاتی مفاد اُس شخص کے پیشِ نظر نہیں ہے، بلکہ یہ کام کر کے تو اُس نے اپنے مفاد کو قربان کر دیا ہے۔ اپنی تجارت کو برباد کیا۔ اپنے عیش و آرام کو تَج دیا۔ جس معاشرے میں اسے سر آنکھوں پر بٹھا یا جاتا تھا، اُسی میں گالیاں کھانے لگا۔ اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بال بچوں تک کو ہر قسم کے مصائب میں مبتلا کر لیا۔ ذاتی مفاد کا خواہشمند ان کانٹوں میں اپنے آپ کو کیوں  گھسیٹتا؟
          (۳)اُن کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ اُنہی کے معاشرے میں سے جو لوگ اُس شخص پر ایمان لا رہے تھے ان کی زندگی میں یک لخت ایک انقلاب بر پا ہو جاتا تھا۔ کسی شاعر یا کاہن کے کلام میں یہ تاثیر آخر کب دیکھی گئی ہے کہ وہ لوگوں میں ایسی زبردست اخلاقی تبدیلی پیدا کر دے اور اس کے ماننے والے اُس کی خاطر ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں؟
          (۴)اُن سے یہ بات بھی چھپی ہوئی نہ تھی کہ شعر کی زبان کیا ہوتی ہے اور کاہنوں کا کلام کیسا ہوتا ہے۔ ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کون یہ کہہ سکتا تھا کہ قرآن کی زبان شاعری یا کہانت کی زبان ہے(اس پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۷۔ جلد چہارم، الشعراء، حواشی ۱۴۲ تا۱۴۵۔ اور جلد پنجم، الطور حاشیہ ۲۲ میں کر چکے ہیں۔
          (۵)یہ بات بھی اُن کی نگاہوں کےسامنے تھی کہ پورے عرب میں کوئی شخص ایسا فصیح و بلیغ نہ تھا جس کا کلام قرآن کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو۔ اُس کے برابر تو درکنار ، اس کے قریب تک کسی کی فصاحت و بلاغت نہیں پہنچتی تھی۔
          (۶)ان سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بھی اپنی ادبی شان کے لحاظ سے قرآن کی ادبی شان بہت مختلف تھی۔ کوئی اہل زبان حضور ؐ کی اپنی تقریر ، اور قرآن کو سُن کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہیں۔
          (۷)قرآن جن مضامین اور علوم پر مشتمل تھا، دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی مکہ کے لوگوں نے کبھی وہ باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ سنی تھیں، او وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کے مخالفین اگر یہ الزامات لگاتے   بھی تھےکہ آپ کہیں سے خفیہ طریقے پر یہ معلومات حاصل کرتے ہیں تو مکہ میں کوئی شخص اُن کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا(اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن جلد دوم، النحل حاشیہ ۱۰۷، اور جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۱۲ میں کر چکے ہیں)۔
          (۸)زمین سے لے کر آسمان تک اس عظیم الشان کارخانہ ہستی کو بھی وہ اپنی آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ رہےتھے جس میں ایک زبردست حکیمانہ قانون اور ہمہ گیر نظم و ضبط کا ر فرما نظر آرہا تھا۔ اس کے اندر کہیں اُس شرک اور انکارِ آخرت کے لیے کوئی شہادت نہیں پائی جاتی تھی جس کے اہلِ عرب معتقد تھے، بلکہ ہر طرف توحید اور آخرت ہی کی صداقت کے شواہد ملتے تھے جسے قرآن پیش کر رہا تھا۔

          یہ سب کچھ تو دیکھ رہے تھے۔ اور جو کچھ وہ نہیں دیکھ رہے تھے وہ یہ تھا کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق و مالک اور فرمانروا ہے، کائنات میں سب بندے ہی بندے ہیں، خدا اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے اپنا رسول مقرر کیا ہے، اور اُن پر اللہ ہی کی طرف سے یہ قرآن نازل ہو رہا ہے ۔ ان دونوں قسم کے حقائق کی قسم کھا کر وہ بات کہی گئی ہے جو اوپر کی آیا ت میں ارشاد ہوئی ہے۔