اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحاقةحاشیہ نمبر۲۲

یہاں رسولِ کریم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سورہ تکویر(آیت ۱۹) میں اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسولِ کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے ، اور ظاہر  ہے کہ کفارِ مکہ  جبریل ؑ کو نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ بخلاف اس کےسورہ تکویر میں قرآن کو رسولِ کریم  کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحبِ عرش کے ہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے ، وہ امانت در ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو روشن اُفق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ نجم آیات ۵ تا ۱۰ میں جبریل علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے۔

          یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کوحضور ؐ کی زبان سے اور حضور ؐ اسے جبریل ؑ کی زبان سے سُن رہے تھے، اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضور ؐ  کا قول تھا اور وہ دوسرے لحاظ سے جبریل ؑ  کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبریل کی زبان سے ، اور لوگوں کےسامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہورہا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کر تا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغام بر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس کو پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے۔