اس رکوع کو چھاپیں

سورة الملک حاشیہ نمبر۳۵

یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اُس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں اُس کی آمد کا سال، مہینہ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں گے ۔ بلکہ دراصل وہ اُس کے آنے کو غیر ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اُسے جھٹلانے کا ایک بہانہ اُن کے ہاتھ آئے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر ونشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں سنا رہے ہو آخر یہ کب ظہور میں آئے گا؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے؟ ہماری آنکھوں  کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمیں اس کا یقین آجائے؟ اس سلسلے یں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے ، اور قرآن میں جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں۔ رہی اُس کی تاریخ ، تو قیامت کی بحث میں اُس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ اگر بالفرض وہ بتا بھی دی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ نہ ماننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آجائے گی تو مان لوں گا، آج آخر میں کیسے یقین کر لوں کہ وہ اُس روز ضرور آجائے گی( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۶۳۔ الاحزاب ، حاشیہ ۱۱۶۔ سبا، حواشی۵۔۴۸۔ یٰس، حاشیہ ۴۵)۔