اس رکوع کو چھاپیں

سورة الملک حاشیہ نمبر۲۵

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ کسی آفت کے موقع پر سب سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رُخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے ۔ کوئی ناگہانی بلا آپڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اُوپر سے نازل ہوئی ہے۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالمِ بالا سے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتابوں  کو کتبِ سماوی یا کتبِ آسمانی کہا جاتا ہے۔ ابو دواؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ا یک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے ، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتا ہوں؟ حضورؐ نے اُس لونڈی سے پو چھا  اللہ کہاں ہے؟ اُس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اُس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا،  جس سے اُس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اور پر حضورؐ نے فرمایا، اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے ( اسی سے ملتا جُلتا قصہ مُوَطَّا، مُسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے)۔ حضرت خَوْلَہ بنت ثعْلَبَہ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا، وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سُنی گئی (تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ۲ میں ہم اِس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں)۔ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اُس کے ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اُوپر آسمان کی طرف جاتا ہے ۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کریہاں اللہ تعالیٰ کے متعلق مَنْ فِی السَّمَآءِ (وہ جو آسمان میں ہے) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔ اس میں اِس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے  جبکہ اسی سورہ مُلک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے  کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا  (جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے)اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے، فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْ ا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ط (پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُس طرف اللہ کا رُخ ہے)۔